فیصل آباد: (ویب ڈیسک)ملک کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک فیصل آباد میں زرعی یونیورسٹی کے ماہرین نے ایسی جینز کی پینٹ تیار کی ہے جس میں بھنگ کے پودے کا استعمال کیا گیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’بی بی سی‘ کی رپورٹ کے مطابق اس جینز کو بنانے میں جو دھاگہ استعمال کیا گیا اس میں بھنگ کے پودے سے لیا گیا ریشہ ایک خاص تناسب سے شامل کیا گیا ہے۔
زرعی یونیورسٹی کے شعبہ فیبرک اینڈ ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی کے ماہرین نے پاکستان میں قدرتی طور پر اگنے والی جنگلی بھنگ کو استعمال کرتے ہوئے لیبارٹری کے اندر بھنگ اور کپاس کو ملا کر دھاگہ تیار کیا ہے۔ اس کے بعد اس سوتر سے جینز تیار کرنے تک کا تمام عمل بھی تجربہ گاہ میں مکمل کیا گیا لیکن یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے دنیا میں پہلے ہی سے بھنگ ملی جینز تیار بھی ہو رہی ہے اور پہنی بھی جا رہی ہے۔
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ فیبرک اینڈ ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی کے چیئرمین ڈاکٹر اسد فاروق نے بی بی سی کو بتایا کہ بھنگ اربوں ڈالر کی صنعت ہے۔ عالمی منڈی میں بھنگ ملی جینز کی مانگ بہت زیادہ ہے اور مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پاکستان اس کی فروخت سے اربوں ڈالر زرِ مبادلہ کما سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری یہ تھا کہ ایسی جینز کی تیاری میں استعمال ہونے والا بھنگ کا دھاگہ مقامی طور پر بنایا جائے۔ اس طرح بھنگ کے دھاگے کی فراہمی یعنی سپلائی کا ایک حجم بنایا جا سکے گا جس سے اس کی قیمت میں کمی آ جائے گی۔
شعبہ فیبرک اینڈ ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی کے چیئرمین ڈاکٹر اسد فاروق نے بی بی سی کو بتایا کہ بھنگ ملی جینز کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ایک پائیدار جینز ہے۔ اس جینز کو اس لیے پائیدار کہا جاتا ہے کہ کپاس کے مقابلے میں بھنگ از خود ایک پائیدار فصل تصور کی جا رہی ہے۔ اسی لیے بھنگ سے بنی جینز کی تیاری کا طریقہ کار بھی زیادہ پائیدار ہے۔ دنیا بھر میں یہ تصور وجود پا چکا ہے کہ کپڑے کی صنعت آلودہ اور آلودگی پیدا کرنے والی صنعت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کپاس کی فصل کے لیے بڑی مقدار میں پانی اور کیمیائی کھادوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ کیڑا کش ادویات اس کے علاوہ ہیں۔
ڈاکٹر اسد فاروق کے مطابق بھنگ نہ صرف یہ کہ ایک پائیدار پودا ہے بلکہ اس کے اندر جراثیم کش خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں۔ بھنگ کا دھاگہ اس کی چھال یا تنے کے اندر موجود ہوتا ہے اس لیے اسے حشرات یا کیڑے نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اور یہ پودہ بارش کے پانی سے قدرتی طور پر اگتا ہے یعنی اسے زیادہ پانی اور کھاد کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔
ڈاکٹر اسد کے مطابق پاکستان دنیا میں بھنگ کو استعمال کرتے ہوئے کپڑا اور خصوصاً جینز بنانے کے حوالے سے ایک مانگ جنم لے رہی ہے جو پاکستان میں ڈینم یا جینز بنانے والی ملوں کے پاس بھی پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں مقامی طور پر صنعتی بھنگ سے سستی جینز بنانے کی صلاحیت مل جانے سے پاکستان عالمی منڈی میں کئی گنا زیادہ زرِ مبادلہ کما سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی کپڑے کی صنعت کے پاس کورونا کے بعد کے لیے دنیا میں پیدا ہونے والی کپڑے کی مانگ کو پورے کرنے کے لیے بڑی تعداد میں آرڈر موصول ہو چکے ہیں۔ اسی پس منظر میں انہوں نے یہ نئی جدت اپنائی ہے۔