انسانی کھوپڑیوں والی پُراسرار جھیل

Published On 19 May,2021 06:50 pm

نئی دہلی: (دنیا نیوز) روپ کنڈ کوہ ہمالیہ میں واقع سطح سمندر سے لگ بھگ 16500 فٹ کی بلندی پر واقع ایک چھوٹی سی جھیل ہے۔ جس کی گہرائی بمشکل سات فٹ ہو گی جسے چاروں طرف سے بلند و بالا چٹانوں کے گلیشئرز نے گھیر رکھا ہے۔

کہتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم اپنے زوروں پر تھی۔ 1942ء میں ہندوستانی ریاست اترا کھنڈ کے محکمہ جنگلات کے ایک سپاہی ایچ کے مادھو لال اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے دوران ایک غیر معروف سمت سے گزرا تو اس کی نظر اچانک ایک ویران جھیل پر پڑی۔

غور سے دیکھنے کے بعد سپاہی کے قدم خوف سے وہیں جم گئے، اس جھیل میں تیرتی انسانی کھوپڑیاں ایک خوفناک منظر پیش کر رہی تھیں۔ پہلی نظر میں مادھو لال سمجھا کہ یہ یقینا بھوتوں کا کوئی مسکن ہو گا۔

وہ پلٹا اور اپنے افسران کو اس منفرد واقعہ سے آگاہ کیا۔ سبھی کا قیاس تھا کہ شاید یہ جاپانی فوج کے سپاہیوں کی لاشیں ہونگی۔ برطانوی فوج نے انہیں اس جھیل میں پھینک دیا ہو گا۔ وجہ اس قیاس کی یہ بھی تھی کیونکہ اس جنگ کے دوران برطانوی فوج جاپانیوں کے زمینی حملوں سے ہمہ وقت خائف بھی رہتی تھی۔

موسم گرما کے دن تھے، برف کا پانی آنے سے مٹی میں دبی ہوئی انسانی کھوپڑیاں اور ڈھانچے بالکل واضح تیرتے نظر آ رہے تھے۔ ورنہ یہاں سال کے 11 ماہ مسلسل برف کا راج رہتا ہے۔ یہ ذکر ریاست اترا کھنڈ کی   روپ کنڈ جھیل‘‘ کا ہے جو اس سے پہلے وہاں کے باسیوں کی نظر سے جانے کیوں اوجھل رہی۔

جب گلیشئرز کا پانی پگھل کر اس جھیل میں گرتا ہے تو دیکھنے والے اس خوبصورت منظر سے بہت دیر تک محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ یہ منظر اتنا مسحور کن ہوتا ہے کہ باوجود متعدد خطرات کے دنیا بھر سے لوگ تفریح کی خاطر یہاں کھچے چلے آتے ہیں۔

خوبصورتی سے ہٹ کر اس جھیل کی اصل وجہ شہرت وہ بے شمار انسانی کھوپڑیاں بھی ہیں جو جھیل کے کناروں اور جھیل کے اندر پائی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے مقامی طور پر اسے مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے، مثلاً کھوپڑیوں والی جھیل، پراسرار جھیل ، ڈھانچوں والی جھیل وغیرہ وغیرہ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے آس پاس دور دور تک کوئی آبادی نہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ یہاں کبھی کوئی بستی آباد ہوئی ہو گی مگر اب تو یہ بھوت بستی ہی لگتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ راز آج تک راز ہی ہے کہ آخر اس قدر زیادہ تعداد میں انسانی ڈھانچے آئے کہاں سے؟ اور ان ڈھانچوں کا تعلق کس ملک یا قوم سے ہے؟ اور یہ بھی کہ ان ڈھانچوں کے پیچھے آخر کیا وجوہات کارفرما تھیں؟

اس کی تہہ تک پہنچنے کے لئے ہمیں دنیا بھر کے سائنسی ، جینیاتی اور تاریخی اداروں کی جدید تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی نتیجہ اخذ کرنا ہو گا کیونکہ ایک عرصہ تک دنیا بھر کے حیاتیاتی ، ارتقائی اور جینیاتی ماہرین اس حیران کن واقعے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے اس جھیل اور اس کے آس پاس کے علاقوں کا جائزہ لیتے رہے ہیں۔

اس سلسلے میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ایکسیلیٹر یونٹ کی تحقیق خوش آئند ہے ۔ انہوں نے ہڈیوں کا جائزہ لیتے ہوئے انتہائی وثوق سے بتایا ہے کہ یہ ڈھانچے اور انسانی باقیات سن 850 عیسوی کے زمانے کے ہیں ۔ اس تحقیق کے بعد ان شبہات اور اندازوں کی حوصلہ شکنی ہو گی جو اس مستند تحقیق سے پہلے سینہ بہ سینہ مختلف واقعات کو مختلف ادوار سے جوڑ تے آ رہے تھے۔

ڈھانچے اس جھیل میں پہنچے کیسے ؟:اب اصل سوال ذہن میں یہ آتا ہے کہ آخر یہ کون لوگ تھے اور یہاں کیسے پانی میں    دفن‘‘ کر دئیے گئے۔ اس سلسلے میں مختلف لوگوں اور مختلف تحقیقاتی اداروں کی آراء اور نظریات مختلف ہیں جبکہ مقامی اور مذہبی لوگ جو سینہ بہ سینہ چلتی داستانیں سناتے ہیں وہ بالکل مختلف ہیں۔

ان لوگوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا یوں بھی ممکن نہیں کہ لگ بھگ 1200سال پہلے کے یہ لوگ مختلف حوادث کا شکار بھی ہو گئے ہونگے ۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق ان ڈھانچوں اور کھوپڑیوں کی تعداد دو سو سے کچھ زیادہ ہی ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق یہ انسانی ڈھانچے جو اب صرف ہڈیوں کی صورت میں باقی ہیں اس لئے بھی ایک لمبے عرصے سے محفوظ ہیں کیونکہ یہاں سارا سال یہ برف تلے دبے رہتے ہیں اور گرمیوں کے صرف ایک ماہ کے دوران جب برف پگھل کر پانی میں تبدیل ہو جاتی ہے تو یہ ڈھانچے اور کھوپڑیاں پانی میں تیرنے لگتے ہیں۔

کافی عرصہ پہلے نیشنل جیوگرافک کی ایک ٹیم نے اس جگہ کا دورہ کیا اور ان ڈھانچوں کا تفصیلی مشاہدہ کیا تو انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ ڈھانچے اور ان کا سامان دونوں کافی حد تک محفوظ تھے۔ جس سے انہیں یہ اندازہ لگانے میں یہ اشارہ بھی ملا کہ یہ سب یہاں ایک گروپ کی شکل میں زندہ یا مردہ لائے گئے ہو نگے۔ کیونکہ ان کے ساتھ ان کے سامان میں لکڑی کے ہتھیار، اوزار، لوہے کے بھالے، چمڑے کے جوتے، انگو ٹھیاں اور بعض مختلف قسم کے دھاتی برتن اور کچھ دیگر متفرق دھاتی اشیاء بھی پائی گئی تھیں۔ لیکن اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ کچھ ڈھانچوں اور کھوپڑیوں پر کہیں کہیں تھوڑا بہت گوشت بھی لگا ہوا تھا۔اگرچہ موسموں کی سختیوں اور تبدیلیوں نے ان کے جسموں سے کافی حد تک گوشت کو ختم کر دیا تھا تاہم مکمل طور پر نہیں۔

ہاورڈ سکول آف میڈیکل کے جنیاتی علم کے ماہر ڈیوڈ رئیک کے بقول 38 خواتین اور مردوں کے ڈھانچوں کے ڈی این اے ٹیسٹوں اور باقیات کے آئسو ٹوپس تجزئیے نے ان کی عمر، غذا اور ریڈیو کاربن کی تاریخ کا تعین کرنے سے کنڈ جھیل کی تاریخ اور دیگر پوشیدہ معاملات تک رسائی کی امید کی ایک کرن پیدا کر دی ہے۔

اس تحقیق کے دوران جن 23 مردوں اور 15 خواتین کے ڈھانچے جو اس جھیل کے قریب سے ملے تھے ،ان کے ڈی این اے ٹیسٹوں کے جنیوم کا موازنہ قدیم دور کے افراد کے ساتھ جبکہ 7985 جدید دور کے افراد سے کیا گیا تھا ۔ اس تحقیق اور تجزئیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان تمام 38 میں سے 23 افراد کا تعلق ہندوستان کے دور حاضر کے جینیاتی گروہوں کے قریب تر تھا۔

تحریر: خاور نیازی

 

Advertisement