ممبئی : (ویب ڈیسک) بھارت کی بمبئی ہائی کورٹ نے شوہر اور اس کے اہل خانہ کے خلاف بیوی کی شکایت پر درج فوجداری مقدمہ اور کارروائی کو یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا کہ بیوی کے لباس یا کھانا پکانے کی صلاحیت پر تبصرہ سنگین ظلم یا ہراسانی کے زمرے میں نہیں آتا۔
اورنگ آباد بنچ کے جج جسٹس ویبھا کنکنواڑی اور جسٹس سنجے اے دیش مُکھ نے فیصلے میں قرار دیا کہ یہ کہنا کہ بیوی مناسب کپڑے نہیں پہنتی یا کھانا ٹھیک سے نہیں پکاتی، سنگین ظلم یا ہراسانی نہیں ہے۔
عدالت نے فیصلے میں مشاہدہ پیش کیا کہ تعلقات کشیدہ ہونے پر الزامات میں مبالغہ آرائی عام بات ہے، اور اگر الزامات معمولی نوعیت کے ہوں تو شوہر اور اس کے گھر والوں کے خلاف مقدمات دائر کرنا قانون کا غلط استعمال ہے۔
یہ مقدمہ ایک خاتون کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر سے شروع ہوا تھا، جس نے مارچ 2022 میں دوسری شادی کی تھی، شادی کے ڈیڑھ ماہ بعد خاتون نے الزام لگایا کہ شوہر کا رویہ بدل گیا اور شادی سے پہلے شوہر کے ذہنی و جسمانی امراض چھپائے گئے۔
عدالت نے شواہد میں پایا کہ شادی سے پہلے ہونے والی بات چیت میں شوہر نے اپنی دواؤں اور علاج کے بارے میں واضح طور پر بتایا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاتون کو سب علم تھا۔
خاتون نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ دیوالی کے قریب اُن سے 15 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا گیا تھا تاکہ فلیٹ خریدا جا سکے، لیکن عدالت نے نشاندہی کی کہ شوہر کے پاس پہلے ہی فلیٹ موجود ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ بیوی کے بیشتر الزامات غیر واضح اور بغیر ٹھوس شواہد کے ہیں، اور ایف آئی آر میں صرف بیوی کا بیان شامل ہے جبکہ پڑوسیوں سے بھی کوئی تفتیش نہیں کی گئی، اس بنا پر ایف آئی آر اور تمام عدالتی کارروائی منسوخ کر دی گئی۔