سری نگر: (دنیا نیوز) کشمیر میں آزادی کی موجودہ لہر کو تین دہائیاں بیت گئیں، بھارتی فوج کے ہاتھوں نہ کسی کی جان محفوظ ہے نہ عزت، کشمیری باشندے لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے اسکے باوجود عالمی ضمیر کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اقوام متحدہ بھی کشمیریوں کو آزادی دلانے اور بھارت کے خلاف کوئی موثر اقدام اٹھانے میں ناکام ہو گئی۔
جنت نظیر، وادی کشمیر، میں 1947 سے شروع ہوئی جدوجہد آزادی نے مختلف ادوار دیکھے ہیں، اس تحریک کی موجودہ لہر 31 جولائی 1988 کو شروع ہوئی جب سری نگر کے ٹیلیگراف آفس میں دیسی ساختہ بم کا پہلا دھماکا کیا گیا تھا، اس سے کوئی شخص ہلاک یا زخمی تو نہیں ہوا تاہم یہی دھماکا وہ پہلی چنگاری تھا جس نے پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
آزادی کی تڑپ نے مسلح جدوجہد کو تازہ ہوا دی اور بھارت کی ہٹ دھرمی نے کشمیر میں وہ آگ بھڑکائی جو انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کے مطابق پچھلے 30 برسوں میں 70 ہزار سے زائد جانیں لے چکی ہے۔ اس بم دھماکے میں ملوث آزادی پسند مقامی باشندوں کی حمایت پر حیران رہ گئے تھے، تب سے بھارت کو اپنے زیر قبضہ کشمیر میں حالات کو قابو میں رکھنے کی مسلسل کوششوں کا سامنا ہے اور 7 لاکھ سے زائد فوجیوں کی تعیناتی بھی آزادی کی تڑپ کو کم نہ کر سکی۔
آج روائتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ جدید سوشل میڈیا کا ہتھیار بھی کشمیری آزادی پسندوں کے زیر استعمال ہے، سینکڑوں نوجوان فیس بک سمیت سوشل میڈیا پر اے کے 47 رائفلوں کے ساتھ لی گئی اپنی تصویریں پوسٹ کرتے ہیں اور ان آزادی پسندوں کی تصویروں سے نئی نسل متاثر ہو رہی ہے۔
آزادی کے ان متوالوں کو مقامی آبادی کی مکمل حمایت حاصل ہے، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب بھارتی قابض فورسز کے دستے انہیں کہیں گھیر لیتے ہیں تو لوگ ان راستوں کو بند کر دیتے ہیں، جہاں سے ہو کر وہ ان تک پہنچ سکتی ہوں۔ قابض فوج روائتی ہتھیاروں سمیت بھارتی حکومت کیخلاف سوشل میڈیا کے ہتھیار کو قابو کرنے میں ناکام ہے۔ آئے روز کرفیو، انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس معطل کر دینے کے باوجود تحریک آزادی کی اس آواز کو دبایا نہیں جا سکا۔