لاہور: (دنیا نیوز) دنیاکے ساٹھ فیصد حصے میں چین کا سرمایہ اور صنعتیں کام کر رہی ہیں۔ اور وہ مزید سرمایہ کاری کرتا جا رہا ہے۔ اقتصادی ماہرین نے چین اور امریکا کے درمیان تجارتی جنگ کو تاریخ کی سب سے بڑی ٹریڈ وار قرار دیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین کی بڑھتی ہوئی تجارت ،سرمایہ کاری اور سیاسی اثرورسوخ میں اضافے سے شدید بوکھلاہٹ کا شکا ر نظر آتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تیسری بار چینی اشیاء پر 200 بلین ڈالر کا ٹیرف نافز کیا ہے جبکہ جنوری2018میں واشنگ مشین اور سولر سیل پر سیف گارڈ ٹیرف نافذ کیا تھا۔
فروری میں چین نے امریکا سے درآمد sorghumمیں ایک سالہ سبسڈی کی تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا جبکہ مارچ میں امریکا نے چین سے درآمد ہونے والی اسٹیل اور ایلومینیم کی اشیاء پرٹیرف نافذ کیا۔مارچ میں ہی چین نے جوابا امریکا سے درآمد ہونے والی اشیاء پر 3بلین ڈالر کا ٹیرف لگا دیا۔ اپریل میں امریکا نے پچاس بلین ڈالر کی اشیاء پر ٹیرف نافذ کیا جبکہ جواب میں چین نے بیان دیا کہ وہ امریکا کی 106اشیاء پر 25فیصد ٹیرف نافذ کریگا۔ چین نے سیکشن 301 کے تحت ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں امریکا کی شکایت کی۔ اپریل میں ہی چین نےاعلان کیا کہ وہ امریکا سے درآمد کی گئی ایک بلین ڈالر کی sorghum پر اینٹی ڈمپنگ ٹیرف جمع کرے گا۔ مئی میں واشنگٹن میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد چین نے sorghum پر تحقیقات ختم کر دیں۔
جون میں بیجنگ ، امریکا اور چینی حکام کےدرمیان ملاقات ہوئی جس میں 2018میں امریکا سے 25بلین ڈالر کی اشیاء خریدنے کی پیشکش کی۔ جون میں امریکا نے چین سے دوبارہ 50 ارب ڈالر کی درآمد پر ٹیرف کا اعلان کیا، امریکا نے چینی اشیاء پر 200بلین ٹیرف پر غور کرنا شروع کیا توجواب میں چین نے ایک فہرست بنائی جس میں امریکا سے درآمد اشیاء پر 60بلین ڈالر تک ٹیرف کا اعلان کیا۔
جولائی میں وائٹ ہاؤس نے 34 ارب امریکی ڈالر کی چینی اشیا کے چارجز میں اضافہ کیا تھا۔ اگست کے دوران امریکا نے دوسرے مرحلے میں16 ارب کی اشیا پر 25 فیصد ٹیکس نافذ کیا تھا اور اب امریکا نے 5ہزار سے زائد چینی اشیاء پر 200ارب ڈالر مالیت کے نئے ٹیکس عائد کردیے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اور بیجنگ کی یہ تجارتی جنگ عالمی معیشت کو ایک نئے بحران سے دوچار کر سکتی ہے۔