تہران (نیٹ نیوز ) چار نومبرکی تاریخ قریب آتے ہی ایران غیرمسبوق تشویش کے مراحل میں داخل ہوگیا ہے۔ آئندہ ماہ کے اوائل ہی میں امریکا نے ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عاید کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ امریکا کی ایران پر متوقع پاپندیوں کے نتیجے میں ایران کو غیرملکی کرنسی کی فراہمی، ایرانی تیل کی عالمی منڈی میں خریدو فروخت اور عالمی سطح پر ایرانی تجارت بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔
تیل کی فروخت کے متبادل راستے
امریکی پابندیوں کےنتیجے میں ایران پر مرتب ہونے والے تباہ کن معاشی اثرات کےحوالے سے برطانوی اخبار "فائنشیل ٹائمز" نے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔۔ رپورٹ میںبتایا گیا ہے کہ ایران ماضی میں عالمی اقتصادی پابندیوں سے بچنے کے لیے کئی طرح کے حیلے اور حربے استعمال کرتا رہا ہے۔ ایران نے اپنے تیل کی فروخت کے لیے بھی متبادل راستے اختیارکیے مگر اب کی بار امریکا کی طرف سے تہران پر عاید کردہ پابندیاں مزید سخت اور زیادہ تباہ کن ثابت ہوں گی۔
اخبار نے ایرانی رجیم کے ایک قریب ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران امریکی پابندیوں کو محدود کرنے کے لیے امریکی انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کا خواہاں ہے۔ اس مقصد کے لیے تہران نے مختلف حربے استعمال کرنا شروع کیے ہیں۔
ثالث کے کردار کی تلاش
برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایرانی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تہران نے حیلہ سازی کے منصوبے شروع کیے ہیں۔ ان میں ایک منصوبہ "ثالث" کی تلاش ہے۔ اس اقدام کے ذریعے امریکا کسی تیسری قوت کو درمیان میں شامل کرکے امریکا کی طرف سے عاید کردہ پابندیوں میں نرمی کی کوشش کرے گا اور عالمی منڈی میں ایرانی تیل کی فروخت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ایران یہ چاہتا ہے کہ امریکی پابندیوں کی بناء پر ایرانی حکومت خود عالمی منڈی میں تیل فروخت کرنے بجائے کسی تیسرے ملک یا ممالک سے یہ کام کرائے۔
اخباری رپورٹ کے مطابق ایران نے سنہ 2012ء میں "سٹاک ایکسچینج" قائم کی تھی۔ اس کے ذریعے مستقبل یں ایران اپنے اقتصادی منصوبوں کی حیلہ سازی کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
فائنشنل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایران اپنے تاجروں سے بھی رقم بٹورنے کی کوشش کررہا ہے۔ ایرانی کاروباری شخصیت بابک زانجانی سے ایرانی حکومت نے 2 ارب 80 کروڑ ڈالر کی رقم لینے کے لیے مقدمہ چلایا۔ وہ اتنی خطیر رقم حکومت کو نہیں دے سکے جس کے باعث انہیں سزائے موت سنائیی گئی ہے۔