لاہور: (بی بی سی ) یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے لیے بریگزٹ معاہدے پر کسی قسم کا واضح فیصلہ نہ کیے جانے کی وجہ سے اس وقت برطانیہ جدید تاریخ کے بدترین بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ برطانوی پاؤنڈ کی قیمت بہت زیادہ گر گئی ہے۔
ہرمیس انویسٹمنٹ مینجمنٹ کے سلویا ڈال اینجیلو نے کہا ہے کہ بزنس کمیونٹی کا اعتماد نچلی ترین سطح تک گر گیا ہے۔ برطانوی چیمبر آف کامرس کے رہنما ڈاکٹر ایڈم مارشل نے برے حالات کا انتباہ کیا ہے۔ ’حالات کو قابو میں لانے کے لیے کوششوں کو دوگنا کر دینا چاہیے اور ساتھ ہی برطانوی کاروباری حلقوں کو کسی بھی قسم کے حالات سے نمٹنے کیلئے تیار کرنے کے اقدامات بڑھا دینے چاہئیں۔ ‘اس دوران برطانوی وزیرِ اعظم ٹیریسا مے نے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے معاہدے پر پارلیمنٹ میں یقینی شکست کو دیکھتے ہوئے معاہدے پر ووٹنگ رکوالی ہے۔
منگل کو برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان بریگزٹ معاہدے کی برطانوی پارلیمنٹ سے توثیق کے لیے ووٹنگ ہونا تھی۔ لیکن وزیرِ اعظم نے تاحال ووٹنگ کے لیے کسی نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ مسز مے نے کہا ہے کہ اگرچہ کئی ارکانِ پارلیمان ان کے اس معاہدے کے حامی ہیں لیکن شمالی آئرلینڈ اور ری پبلک آف آئرلینڈ کے درمیان کھلی سرحد کے ایک اور معاہدے کے بارے میں کئی حلقوں میں تشویش تھی۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ چند دنوں میں وہ ارکانِ پارلیمان میں پائی جانے والی اس تشویش کو دور کرنے کی کوشش کریں گی۔
دوسری طرف شمالی آئرلینڈ کی فرسٹ منسٹر نے ری پبلک آف آئرلینڈ سے تعلقات میں تبدیلی کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ اس طرح ٹیریسا مے کے اس اعلان کے بعد برطانیہ میں بے یقینی کی حالت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ بریگزٹ کے معاہدے پر رائے شماری کے بعد بے یقینی کم ہو جائے گی۔ تاہم ووٹنگ کے ملتوی کیے جانے سے حکومت بریگزٹ معاہدے کی شکست سے تو بچ گئی لیکن یہ التوا برطانوی پاؤنڈ کی قیمت کو گرنے سے نہ روک سکا۔ اس وقت پاؤنڈ کی قدر ایک ڈالر اور چھبیس سینٹ گرچکی ہے جو گزشتہ اٹھارہ ماہ میں سب سے کم قیمت ہے۔ حکمران جماعت کے درجنوں ارکان بریگزٹ معاہدے کی مخالفت کا اعلان کرچکے تھے۔ اگر ایسی صورت میں اس پر پارلیمان میں ووٹنگ ہوتی تو لیبر، سکاٹش نیشنل پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹس کامیاب ہو جاتے۔ لیبر پارٹی نے پہلے ہی سے اعلان کر رکھا ہے کہ اگر بریگزٹ معاہدے پر ٹیریسا مے کو شکست ہوئی تو وہ دارالعوام میں ان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی تحریک لائیں گے۔
اگرچہ ٹوری پارٹی میں بغاوت کی وجہ سے کئی لوگ کہہ رہے تھے کہ ووٹنگ ملتوی کر دی جائے لیکن پیر کی صبح تک وزیرِ اعظم مے اور ان کے ساتھی کا کہنا تھا کہ وہ ہر حال میں بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ کرائیں گے ۔البتہ جب پیر کو ہی یورپین کورٹ آف جسٹس نے اپنے فیصلے کا اعلان کیا کہ برطانیہ بریگزٹ کے عمل کو یورپی یونین کے دیگر ارکان کی اجازت کے بغیر منسوخ کرسکتا ہے، تو اس سے حکمران جماعت کے اندر بریگزٹ معاہدے کے مخالفین کے حوصلے بڑھ گئے۔ ان تمام حالات میں اب یہ نوشتہ دیوار پڑھا جانے لگا کہ بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ ملتوی کر دی جائے گی۔ لندن کے کئی آن لائن اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز نے اپنے اپنے ذرائع سے اس سلسلے میں خبریں بھی دینی شروع کر دی تھیں۔ ووٹنگ کے التوا کا اعلان وزیر اعظم ٹیریسا مے نے پارلیمان سے خطاب کے دوارن اپنی تقریر میں خود کیا۔
بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ کے التوا کے باوجود برطانیہ میں سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی ہے اور نہ ہی یورپین کورٹ آف جسٹس کے فیصلے کی وجہ سے استحکام پیدا ہوا ہے۔ اب تک کے حالات کے مطابق اگلے برس 29 مارچ تک بریگزٹ کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ لیکن یورپین کورٹ آف جسٹس کے فیصلے کے بعد اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ اگر برطانیہ بریگزٹ کے عمل کو منسوخ کرنا چاہے تو یورپی یونین کے دیگر ارکان بریگزٹ برطانیہ پر مسلط نہیں کرسکتے۔ مگر پھر بھی یورپی یونین کے صدر ینکر کا کہنا ہے کہ بریگزٹ معاہدہ طے پا چکا ہے اس لیے یور پین کورٹ آف جسٹس کے فیصلے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اسی طرح برطانیہ کی حکمران جماعت کے ارکان عدالت کے اس فیصلے کو بریگزٹ کے عمل کی توثیق کہہ رہے ہیں۔ ان کے مطابق عدالت نے ریفرنڈم کو قانونی تسلیم کیا ہے اس لیے اس پر عملدرآمد نہ کرنا برطانوی عوام کی رائے سے انحراف کرنے کے مترادف ہوگا۔
اس وقت بریگزٹ معاہدے کا کیا مستقبل ہے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم ماہرین چھ امکانات کی نشاندہی کر رہے ہیں: کوئی معاہدہ نہ طے پائے۔ معاہدے پر ایک اور رائے شماری ہو۔ نئے سرے سے مذاکرات کا سلسہ شروع ہو۔ پارلیمان ٹوٹ جائے اور نئے انتخابات۔ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے۔ بریگزٹ پر ایک نیا ریفرنڈم ہو۔