لاہور: (دنیا نیوز) دو ہزار اٹھارہ کے دوران امریکی صدر نے جہاں اپنوں سے لفظی جنگ جاری رکھی، وہیں دنیا کے دیگر ممالک سے بھی تعلقات بگاڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
چند اہم واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ گزشتہ سال کی طرح دو ہزار اٹھارہ میں بھی عالمی میڈیا پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چرچے رہے۔ سال بھر میں ٹرمپ انتظامیہ کے 44 عہدیدار نکال دیے گئے یا ٹرمپ کے رویے سے تنگ آ کر ساتھ چھوڑ گئے۔ ان میں وائٹ ہاؤس چیف آف سٹاف، متعدد ڈپٹی چیفس، سینئر مشیر اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر شامل ہیں۔
سال کا آغاز امریکی صدر نے پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی رقم روکنے کا اعلان کرتے ہوئے کیا، اگلے ہی دن شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کو دھمکی دی کہ امریکا کا ایٹمی ہتھیاروں والا بٹن شمالی کوریا کے بٹن سے زیادہ بڑا اور طاقتور ہے۔ اسی دن فلسطین کو بھی دھمکی دی کہ اگر وہ اسرائیل سے مذاکرات پر آمادہ نہ ہوئے تو امداد روک دی جائے گی۔
12 جنوری کو وال سٹریٹ جنرل نے خبر دی کہ ٹرمپ کے وکیل مائیکل کوہن نے ایک اداکارہ کو چپ رہنے کے لیے ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر ادا کیے جو ٹرمپ سے تعلقات کے حوالے سے پریس کانفرنس کرنے والی تھی، یہ سکینڈل ابھی تک ٹرمپ کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔
20 جنوری کو وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کا ایک سال مکمل ہوا، ساتھ ہی امریکی حکومت شٹ ڈاؤن کا شکار ہو گئی کیونکہ سرکاری اخراجات کی مد میں رقم جاری کروانے کے لیے حکومتی بل سینیٹ سے منظور نہ ہو سکا تھا۔
8 مارچ کو ٹرمپ نے چین اور ترکی سمیت کئی ممالک سے لوہے اور ایلومینیم کی درآمد پر محصول عائد کرنے کا اعلان کر دیا جو امریکا کے ساتھ چین،روس، یورپ، کینیڈا اور دیگر ممالک کی تجارتی جنگ کے آغاز کا باعث بنا۔ اسی دن ہی امریکی صدر نے شمالی کوریا کے چیئرمین کم جونگ اُن سے ملاقات کی حامی بھر لی۔
13 مارچ کو ٹرمپ نے اپنے وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کو فارغ کرتے ہوئے سابق سی آئی اے ڈائریکٹر مائیک پومپیو کو نیا وزیر خارجہ مقرر کیا اور ساتھ ہی جینا ہاسپل کو سی آئی کی پہلی خاتون ڈائریکٹر نامزد کر دیا۔
26 مارچ کو ٹرمپ نے روس کے ساٹھ سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کا حکم دے دیا جس سے ٹرمپ اور پیوٹن کے بظاہر اچھے تعلقات میں دراڑیں پڑنی شروع ہو گئیں۔
8 مئی کو امریکی صدر نے ایران نیوکلیئر ڈیل سے الگ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر 2015ء سے پہلے لاگو پابندیوں کو دوبارہ نافذ کرنے کی ہدایت کر دی۔
12 جون دو ہزار اٹھارہ کو وہ تاریخی دن بھی آ گیا جب ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ اُن کی ملاقات ہوئی اور شمالی کوریا نے ایٹمی تجربات سے دستبرداری کا اعلان کیا۔
14 مئی 2018ء کو امریکا نے تل ابیب میں اپنا سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا اور باقاعدہ طور پر بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیا جبکہ اقوام متحدہ نے دو ہزار سترہ میں اس حوالے سے امریکی قرار داد کو مسترد کر دیا تھا۔
16 جولائی کو پیوٹن اور ٹرمپ نے فن لینڈ میں ایک کانفرنس کے دوران ملاقات کی اور مشترکہ پریس کانفرنس میں امریکا روس تعلقات میں کشیدگی کو سابقہ حکومتوں کی بے وقوفی قرار دیا۔
9 اکتوبر کو اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلے نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا جو اس سال کے آخر میں عہدہ چھوڑ دیں گی ان کی جگہ دفتر خارجہ کی ترجمان Heather Nauert سنبھالیں گی۔
6 نومبر کو امریکا میں وسط مدتی انتخابات ہوئے جس میںHouse of Representatives میں ڈیموکریٹس نے اکثریت حاصل کر لی، تاہم رپبلکن سینیٹ میں اپنی اکثریت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ نومبر کے مہینے میں کیلی فورنیا کے جنگلوں میں لگنے والی آگ نے تباہی مچا دی، آگ کے باعث 86 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 18 ہزار گھر جل کر راکھ بن گئے۔
دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی صحافی کے قتل کے بعد ٹرمپ نے ملوث افراد کو عبرت کا نشان بنانے کا دعویٰ کیا لیکن 20 نومبر کو ٹرمپ نے یہ کہہ کر سعودی ولی عہد کی حمایت کر دی کہ سعودی عرب کے ساتھ امریکا کے اقتصادی مفادات وابستہ ہیں،،ٹرمپ کے اس یوٹرن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
30 نومبر کو امریکا کے سابق صدر جارج ایچ ڈبلیو بش انتقال کر گئے، 5 دسمبر کو بش سینئر کی آخری رسومات کے لیے امریکا بھر میں قومی تعطیل کا اعلان کر دیا گیا۔