لاہور: (روزنامہ دنیا) بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے کے فیصلے کو بڑے پیمانے پر مایوس کن اور قابل مذمت قرار دیا جا رہا ہے، یہ فیصلہ بھارتی وزیراعظم مودی کیلئے ایک خطرناک آزمائش ثابت ہوگا اور یہ امکان بہت واضح ہوگیا ہے کہ اگر انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے بارے میں اپنی سوچ اور طرز عمل میں تبدیلی نہ کی تو وہ بری طرح ناکام ہوجائیں گے۔
بلاشبہ مسئلہ کشمیر 1947 کی تقسیم ہند کا ورثہ ہے، جب پاکستان کے قبائلی مجاہدین نے کشمیر پر یلغار کی تو اپنا اقتدار بچانے کیلئے کشمیر کے ہندو راجا نے ریاست کے بھارت کیساتھ الحاق کا اعلان کر دیا، حالانکہ اسے یہ اختیار حاصل نہیں تھا کیونکہ کشمیر میں مسلمانوں کی غالب اکثریت تھی، اس وقت وادی کے بڑے حصے پر بھارت قابض ہے۔ دو وجوہات کی بنا پر یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے معاملات میں کیا طرز عمل اختیار کرتا ہے۔ پہلی بات تٍو یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر خطے کی دو خطرناک ایٹمی طاقتوں کے مابین سب سے بڑا تنازع ہے، یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ بھارت میں جہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے مقبوضہ کشمیر وہ واحد ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، اسی لئے یہ ریاست بھارتی حکمرانوں کی آزمائش کا مقام بھی ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر کیساتھ ان کے برتاؤ سے ہی اس بات کا تعین ہوگا کہ ان میں کس قدر تحمل اور قوت برداشت ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس حساس صورتحال کا ادراک کئے بغیر مودی حکومت نے اپنی طاقت کا اندھا استعمال کیا، اس نے ایک ایسا فیصلہ کیا جو زمینی تقاضوں کے بالکل برعکس ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جو کچھ مودی حکومت نے اب کیا ہے اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی، اس لئے کہ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو آئینی طور پر جو سہولتیں ملنی چاہیے تھیں ان کی حیثیت کاغذ پر لکھی تحریر سے زیادہ نہیں تھی کیونکہ عملی طور پر ان سہولتوں کو بہت پہلے ختم کیا جاچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان حقائق کی موجودگی میں مودی حکومت کو اس تازہ اقدام کی کیا ضرورت تھی ؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کا مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمانوں کی اکثریت رکھنے والی ریاست کا خاتمہ کر دیا جائے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مودی حکومت کو یہ احساس ہی نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے سے پاکستان کے ساتھ کشیدگی کسی صورت کم نہیں ہوسکتی، اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک میں موجود کشیدگی میں غیر معمولی اضافہ ہوجائے گا۔
دانشمندی کا تقاضا ہے کہ بھارت سفارتی اور تجارتی دونوں شعبوں میں پاکستان کے ساتھ بامقصد رابطوں کا آغاز کرے، لیکن اس کے برعکس ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید مودی حکومت اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ پاکستان کو نظر انداز کر کے اسے تنہا اور کمزور کرسکے گی، لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ اسی طرح بھارت دہشت گردی کے واقعات کی پشت پناہی کا الزام پاکستان پر عائد کر کے مقبوضہ کشمیر کے عوام کا غم و غصہ ختم نہیں کرسکتا، کیونکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت کے اقدامات بالخصوص وہاں بہت بڑی تعداد میں بھارتی فوجیوں کی تعیناتی نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے اس یقین کو مزید پختہ کر دیا ہے کہ بھارت قابض ملک ہے۔ بھارت کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام میں یہ احساس پیدا کرے کہ انہیں بھی اپنی زندگی اور مستقبل کے معاملات میں دیگر شہریوں کی طرح حقوق حاصل ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ بھارتی حکومت سے ایسی کوئی توقع نہیں، ایسی صورت میں تو یہی ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر سیاسی بے چینی اور کشیدگی کا شکار رہے گا، یہی نہیں بلکہ اس کی وجہ سے پورے خطے میں امن و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق رہیں گے۔