سرینگر: (دنیا نیوز) جنت نظیر وادی بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی جیل بن گئی۔ مقبوضہ وادی میں کرفیو کا 24واں روز، کشمیریوں کی زندگی جہنم بنا دی گئی۔
جان لیوا مرض میں مبتلا مریضوں کو ہسپتال جانے سے روکا جاتا ہے۔ ڈاکٹرز کو بھی کام پر آنے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔ دکانوں میں بھی ادویات کا سٹاک ختم ہوگیا،،پابندیوں اور راستے بند ہونے کی وجہ سے کشمیری محنت کش بے بسی کی تصویر بن گئے۔
مقبوضہ وادی کے چپے چپے پر تعینات بھارتی فوج ڈائلسز کے مریضوں کو ہسپتال جانے کی اجازت نہیں دے رہی۔ کشمیریوں کا کہنا ہے کہ جب سیکورٹی اہلکاروں کو بتاتے ہیں کہ ان کے گردے خراب ہیں تو وہ ہمیں کہتے ہیں دکھاؤ، کیا میں انہیں اپنا پیٹ کاٹ کر خراب گردے دکھاؤں؟ سات سال سے میں علاج کے لیے آ رہا ہوں، ایسی صورتحال میں نے کبھی نہیں دیکھی۔
ادھر ڈاکٹروں کو ہسپتال آنے کے لیے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انہیں صرف ایمبولنس پر ہسپتال آنے کی اجازت ملتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہم صرف ایمبولنس سے آتے ہیں، ایمبولنس آتی ہے تو پہنچتے ہیں، ہم اپنا کارڈ دکھا کر نہیں آ سکتے ہیں، ہمیں بہت مشکلات برداشت کرنا پڑ رہی ہیں۔
دوسری جانب کرفیو کی وجہ سے ادویات کی بھی قلت پیدا ہو چکی ہے۔ کشمیر میں یہی صورتحال رہی تو دو ہفتوں میں ادویات کا سٹاک مکمل ختم ہو جائے گا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق کرفیو توڑ کر باہر نکلنے والے کشمیریوں کو پیلٹ گن سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ چھ سالہ بچی والد کے ساتھ بائیک پر گئی تو اسے بھی پیلٹ گن سے نشانہ بنایاگیا۔
گزشتہ کئی دنوں سے گھروں میں قید کشمیری محنت کش بھی بے بسی کی تصویر بن گئے ہیں۔ کرفیو کی وجہ سے پھلوں کی سپلائی ممکن نہیں رہی۔ مقامی کسانوں کے مطابق سیب آئندہ ہفتے تک منڈیوں تک پہنچائے جانے تھے۔
شادیوں کے سیزن میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے کارپٹ ڈیلرز بھی پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں پر کئی ملازم کام کرتے ہیں جو غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، ہمیں انہیں تنخواہ دینی پڑتی ہے اور ہماری یہاں کوئی سیل ہی نہیں ہے تو ہم کیسے انہیں پیسے دیں۔
بھارتی ڈھٹائی کی وجہ سے کشمیر میں سیاحت ختم ہو گئی ہے۔ ڈل جھیل میں کچھ کشمیری مچھلیاں پکڑ بھوک مٹانے کاسامان جمع کرتے نظر آتے ہیں۔