کشمیر کی صورتحال، ڈیمو کریٹک کے دو صدارتی امیدواروں کا سنگین خدشات کا اظہار

Last Updated On 16 September,2019 08:41 pm

واشنگٹن: (ویب ڈیسک) امریکا کے دو صدارتی امیدواروں نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم اور کرفیو کے دوران وادی کی صورتحال پر سنگین خدشات کا اظہار کیا ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق امریکا کے دو صدارتی امیدوار کمالا حارث اور بیٹو رورکی نے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس تشویش کا اظہار دونوں امیدواروں نے ٹیکساس میں پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین کے ساتھ ملاقات کے دوران کیا۔

پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین طاہر جاوید اور ان کے دوست نعمان حسین ڈیمو کریٹک پارٹی میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر پر جینو سائیڈ واچ کے الرٹ پر تشویش ہے:امریکی ارکان کانگریس

بیٹو رورکی ڈیمو کریٹک کی طرف سے آئندہ الیکشن کے صدارتی امیدوار ہیں جنہوں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو آگے بڑھ کر جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

دوسرے صدارتی امیدوار کمالا حارث کا کہنا ہے کہ ہم یقین دلانا چاہتے ہیں کہ کشمیری دنیا میں اکیلے نہیں ہیں، ہم صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ بگڑتے ہوئے حالات میں مداخلت کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت، امریکی ارکان پارلیمنٹ بھی بول پڑے

یاد رہے کہ اس سے قبل امریکی ارکان کانگریس بھی مقبوضہ وادی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں، بھارت اور اسلام آباد میں ناظم الامور کو ایک خط میں ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں جینو سائیڈ واچ کے الرٹ پر بہت زیادہ تشویش ہے۔

جن امریکی ارکان کانگریس نے خط لکھا ہے ان میں الہان عمر، اینڈی لوین، ٹڈ لیو، راؤل ایم گریجلوا، جیمزپی میگورین، الان لاؤن تھل اور ڈونلڈ ایس بیئر شامل تھے۔

امریکی ارکان کانگریس کے خط میں کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو، اظہار رائے، اجتماعات، نقل و حرکت پر پابندی ناقابل قبول ہے۔ جبری گرفتاریوں اور عصمت دری کی بھی اطلاعات ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر الرٹ ہیں۔

امریکی ارکان کانگریس کے خط میں کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیرمیں نسل کشی پر جینو سائیڈ واچ کے الرٹ پر تشویش ہے۔ صورتحال سے پاک بھارت تعلقات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ وادی میں پابندیاں اٹھانے، صحافیوں کی رسائی کیلئے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔