برلن: (ویب ڈیسک) جرمن چانسلر نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ انقرہ فوری طور پر شمالی شام میں عسکری کارروائی روک دے کیونکہ فوجی کارروائی سے شام کے پہلے سے ہی بگڑے حالات مزید بگڑ جائیں گے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق انجیلا مرکل نے پارلیمان میں تقریر کے دوران کہا کہ ترک فورسز کو شمالی شام میں کارروائی ترک کر دینا چاہیے۔ شام میں ترک عسکری کارروائی کیوجہ سے جنگ سے تباہ حال ملک میں لوگوں کے مصائب میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
شمالی شام میں ترک فوجی کارروائیوں پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے علاوہ یورپ میں بھی نئے سکیورٹی چیلنجز پیدا ہو سکتے ہیں ان کا اشارہ انتہا پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی جانب تھا۔
یاد رہے کہ شمالی شام میں کرد فورسز نے داعش کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ 2014ء میں شامی کرد جنگجوؤں نے امریکا کی حمایت سے جہادیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا ترک صدر کو لکھا گیا خط منظرِعام پر، خلافِ تہذیب زبان استعمال کی گئی
مرکل کا کہنا ہے کہ ترکی نے تقریبا 36 لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دے کر یورپ کو مہاجرین کے بحران سے نمٹنے میں مدد فراہم کی ہے۔ تنقید کے باوجود یورپ اور ترکی کے مابین ہونے والے مہاجرین کے معاہدے کا دفاع کرتی رہیں گی۔
واضح رہے کہ ترکی نے کرد باغیوں سے نمٹنے کی خاطر شام میں عسکری کارروائی کا آغاز 9 اکتوبر کو کیا تھا۔ کارروائی میں ترک فورسز بالخصوص شمالی شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ انقرہ حکومت ان جنگجوؤں کو کالعدم کردستان ورکرز پارٹی سے منسلک قرار دیتی ہے۔ کرد باغی ترکی میں آزادی کی مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ترکی ان باغیوں اور ان سے وابستہ تمام جنگجو گروہوں کو ‘دہشت گرد‘ قرار دیتا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں ترک افواج کی کارروائی پر غیر جانبدارنہ رویہ اختیار کر لیا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ اگر ترکی نے سیز فائر نہ کی تو انقرہ پر مزید پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں تاہم ترکی کا کہنا ہے کہ شامی کرد جنگجوؤں کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا۔ ترکی ان جنگجوؤں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔
دوسری طرف رواں برس کے پہلے 8 ماہ کے دوران جرمنی کی طرف سے ترکی کو برآمد کیے گئے اسلحے کی مالیت 14 برس کے دوران سب سے زیادہ رہی۔ اب تک ترکی کو 250.4 ملین یورو مالیت کا اسلحہ فراہم کیا گیا ہے۔ یہ اعداد وشمار ایک ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب ترک حکومت کی طرف شام کے شمالی حصے میں کارروائی کے سبب جرمنی نے ترکی کو اسلحے کی فروخت پر نگرانی سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔