بیجنگ: (ویب ڈیسک) امریکا اور اقوام متحدہ کے 22 ممالک کی طرف سے چین پر تنقید کی گئی تھی کہ ایغور مسلمانوں پر مظالم روکے جائیں۔ اس تنقید پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے بیجنگ نے امریکا کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اس کے اثرات تجارتی مذاکرات پر پڑ سکتے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’’الجزیرہ‘‘ کے مطابق جرمنی اور امریکا سمیت کئی ممالک نے چینی حکومت پر ایغور مسلم اقلیت کے خلاف ناروا سلوک پر شدید تنقید کی اور انسانی حقوق پر عملدرآمد یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ جرمنی اور امریکا سمیت 23 ممالک نے چینی حکومت کی طرف سے ملک کے مغربی صوبہ سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیت کے خلاف جاری اس کے ناروا سلوک پر شدید تنقید کی ہے۔
اقوام متحدہ میں جرمنی، امریکا، برطانیہ اور 20 دیگر ریاستوں کی طرف سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں بیجنگ حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ملکی قوانین اور غیر ملکی ذمہ داریوں کا پاس رکھے اور سنکیانگ اور چین بھر میں آزادی مذہب سمیت انسانی حقوق کا احترام کرے۔
بیان میں بیجنگ حکومت سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایغور برادری اور دیگر مسلم اقلیتوں کے ارکان کی غیر قانونی حراست سے باز رہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں اور غیر ملکی حکومتوں کے مطابق سنکیانگ میں قائم کردہ سیاسی تعلیمی کیمپوں میں ایغور، قذاق، کرغز اور ہوئی مسلم اقلیتوں کے 15 لاکھ سے زائد افراد کو رکھا گیا ہے۔ چین ان کیمپوں کو تعلیمی اور تربیتی مراکز کا نام دیتا ہے جسکا مقصد دہشت گردی اور مذہبی شدت پسندی سے نمٹنا ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ میں جرمنی کے سفیر کرسٹوف ہوئسگن نے بیجنگ سے مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کو سنکیانگ میں رسائی فراہم کرے۔ اسی طرح کی ایک اپیل قبل ازیں 22 ممالک کی طرف سے رواں برس جولائی میں بھی کی گئی تھی تاہم نے اسے یہ کہتے ہوئے رد کر دیا تھا کہ یہ چین کے داخلی معاملات میں پر تشدد دخل اندازی ہے۔
اقوام متحدہ میں چین کے سفیر زنگ جون کا صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایک طرف امریکا تجارتی معاملے پر مذاکرات کرنا چاہتا ہے تو دوسری ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کر رہا ہے۔اس طرح کی حرکتیں مذاکرات میں روڑے اٹکا سکتی ہے یہ تجارتی مذاکرات کے حوالے سے بہت بری خبر ہو گی۔
انسانی حقوق کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی اس طرح کے معاملات ہیں تو میں اقوام متحدہ میں موجود ہوں، اگر اس طرح کے واقعات چین میں یا دنیا کے کسی اور ملک میں ہوں ہم معاملات کے حل کے لیے اقوام متحدہ میں موجود ہیں۔
یو این میں چینی سفیر کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بے بنیاد الزامات میں جان بوجھ کر اشتعال انگیزی پیدا کی جا رہی ہے۔