خرطوم: (ویب ڈیسک) سوڈان میں عدالت کی طرف سے انٹیلی جنس ادارے کے 27 ارکان کو موت کی سزا سنائی گئی ہے، 27 ارکان نے استاد کو حراست کے دوران تشدد کرکے ہلاک کیا تھا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق حراست کے دوران ہلاکت کا یہ واقعہ فروری 2019ء میں سابق صدر عمر البشر کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران پیش آیا تھا۔
اے ایف پی کے مطابق جج صدوک عبدالرحمان نے سزا سناتے ہوئے کہا کہ ملزمان پر انٹیلی جنس مرکز میں احتجاج کرنے والے کو اذیت دیکر ہلاک کرنے کا جرم ثابت ہوا ہے اور انہیں سزائے موت دی جاتی ہے۔
یہ مقدمہ نوعیت کا پہلا عدالتی مقدمہ تھا جس میں سابق صدر بشیر کی حکومت گرانے کے لیے ہونے والے مظاہروں پر کریک ڈاؤن پر سزائیں سنائی گئی ہیں۔ سوڈان میں مظاہروں کا آغاز دسمبر 2018ء سے ہوا۔ ان مظاہروں میں سوڈانی عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مظاہرین آغاز میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کا مطالبہ کر رہے تھے تاہم جلد ہی ان مظاہروں میں سابق حکمران عمر البشیر کے مستعفی ہونے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ سیاسی نظام میں تبدیلی کا مطالبہ بھی کیا جانے لگا۔ یہ مظاہرے کئی مہینوں تک جاری رہے اور 11 اپریل 2019 کو حکمران عمر البشیر کو اقتدار سے ہٹا کر انہیں گرفتار کر لیا۔
فوج نے ملک کے انتظامی امور سنبھال لیے اور تین مہینوں کی ایمرجنسی نافذ کر دی لیکن مظاہرین جمہوری حکومت کا مطالبہ کر رہے تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ان مظاہروں میں 177 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ ڈاکٹروں کی ایک کمیٹی کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 250 تھی۔
ان میں زیادہ تعداد ان لوگوں تھی جن پر سکیورٹی فورسز کی جانب سے دارالحکومت خرطوم میں آرمی ہیڈکوارٹر کے سامنے فائرنگ کی گئی۔ ستمبر میں وزیراعظم عبداللہ حمدوک کی سربراہی میں ایک نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ اس حکومت میں سویلینز، آرمی اور مظاہرین کے گروپس کے نمائندے موجود ہیں۔