موغا دیشو: (ویب ڈیسک) صومالیہ میں ایک کار بم دھماکے کے باعث ترک شہریوں، طالبعلموں سمیت 100 افراد زندگی کی بازی ہار گئے ہیں جبکہ متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’’اے ایف پی‘‘ کے مطابق دھماکا شہر کی مصروف ترین شاہراہ پر ہوا جہاں سکیورٹی چیک پوائنٹ اور ٹیکس آفس کی وجہ سے ٹریفک کا رش موجود تھا۔ دھماکے کی وجہ سے کئی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا جبکہ زخمیوں کو جائے وقوع سے ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
واضح رہے کہ موغادیشو میں القاعدہ کی اتحادی تنظیم الشباب کے جنگجوؤں کی جانب سے اکثر کار بم دھماکے کیے جاتے رہے ہیں۔
نجی ایمبولینس سروس امین کے ڈائریکٹر عبدالقدیر عبدالرحمٰن حاجی نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے 100 افراد کے ہلاک ہونے اور درجنوں شہری تاحال زخمی ہیں۔
پولیس افسر ابراہیم محمد نے دھماکے کو تباہ کن قرار دیا۔ ہلاک افراد میں 3 ترک شہری بھی شامل ہیں، ان ترک شہریوں کے بارے میں پتہ چلا کہ یہ تینوں انجینئرز تھے اور جو موغادیشو سے افگوئے جانے والی سڑک کی تعمیر میں تکنیکی مدد کے لیے وہاں موجود تھے۔
موغادیشو کے میئر عمر محمد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد ابھی تک معلوم نہیں کی جاسکی ہے تاہم 90 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے تصدیق بعد میں کریں گے تاہم یہ کم نہیں ہوگی، ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد یونیورسٹی کے طالب علم اور دیگر شہری تھے۔
عینی شاہد محب احمد کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی خوفناک سانحہ ہے کیونکہ جب یہ دھماکا ہوا تو اس وقت اس علاقے سے گزرنے والے زیادہ تر افراد میں طالب علم بھی شامل تھے۔ ایک اور عینی شاہد کا کہنا تھا کہ دھماکے کے بعد ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں جن میں سے چند جھلس کر شناخت کے قابل بھی نہیں تھیں۔
دریں اثناء ترکی نے اپنی ایک بیس رکنی طبی ٹیم صومالیہ روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ وہاں زخمیوں کی مدد کی جا سکے۔ روس کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک کے متعدد رہنماؤں نے اس خونریز حملے کی مذمت کرتے ہوئے صومالیہ کو اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
واضح رہے کہ تاحال کسی بھی تنظیم کی جانب سے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے۔
القاعدہ کی اتحادی تنظیم الشباب کو صومالیہ کے دارالحکومت سے 2011 میں نکال دیا گیا تھا تاہم یہ تنظیم اب بھی ملک کے چند علاقوں پر کنٹرول رکھتی ہے جبکہ اس تنظیم کی جانب سے پڑوسی ملک کینیا پر بھی حملے کیے گئے ہیں۔
2 ہفتوں قبل الشباب کے جنگجوؤں کی جانب سے موغادیشو کے ایک ہوٹل پر حملہ کیا گیا تھا جہاں سیاست دان، آرمی افسران اور سفارت کار کا آنا جانا رہتا ہے۔
2015 سے اب تک صومالیہ میں 13 حملے کیے جاچکے ہیں جن میں 20 سے زائد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں سے 11 حملے موغادیشو میں کیے گئے ہیں۔ان تمام حملوں میں کار بم کا استعمال کیا گیا تھا۔
ملک کی تاریخ میں سب سے خونریز حملہ اکتوبر 2017 میں موغادیشو میں پیش آیا تھا جہاں ٹرک دھماکے کی وجہ سے 512 افراد ہلاک اور 295 زخمی ہوگئے تھے۔