واشنگٹن: (رائٹرز) ایرانی جنرل کے قتل کی منظور ی تہہ خانے میں دی جہاں کو ئی کھڑکی نہیں تھی
ایرانی القدس فورس کے سر بر اہ جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے کا فیصلہ صدر ٹرمپ نے ہنگامی اجلاس میں کیا جس میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو، وزیر دفاع مارک ایسپر ، مشیر قومی سلامتی رابرٹ او برائن اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی شریک ہوئے ۔ فلوریڈا کے ساحلی تفریحی مقام ماراے لاگو کے کھڑکیوں کے بغیر تہہ خانے کے کمرے میں صدر ٹرمپ نے اپنے مشیروں سے ملاقات کی، ان کی نظر میں کلاسیفائیڈ بات چیت کیلئے محفوظ ترین جگہ تھی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اہلکار نے بتایا کہ بغداد میں ایرانی نواز ملیشیا کے ارکان کے امریکی سفارتخانے پر حملے کے بعد آخری حکم یہ جاری ہوا‘‘پیکٹ الماری سے نکال دو ’’۔ مختلف آپشنز میں ایران نواز عراقی ملیشیاؤں کے لیڈروں کو نشانہ بنانا اور سائبر آپریشنز شامل تھے مگر آخر میں فیصلہ قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے کا کیا گیا۔ اوبرائن نے رپورٹروں کو بتایا کہ یہ ایک دفاعی کارروائی تھی۔ ایک اور اہلکار نے بتایا کہ جنرل سلیمانی امریکیوں پر حملوں کی اجازت دینے کیلئے پورے خطے کے دورے کر رہے تھے ، امریکی انٹیلی جنس کی نظر میں وہ حتمی حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے ۔ امریکی حکام نے رائٹرز کو بتایا کہ جنرل سلیمانی کو ہمیشہ سے ایک دشمن سمجھا جس کے ہاتھ امریکیوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے ، ان میں عراق کی جنگ کے دوران ایرانی ساختہ دھماکا خیز مواد سے سینکڑوں امریکی فوجیوں کی ہلاکت شامل ہے ۔ اس وقت امریکا نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی۔ سفارتخانے پر حالیہ حملے سے قبل خطے میں متعدد حملوں جن کا الزام ایران پر لگایا گیا تھا کے بعد گزشتہ موسم گرما میں جنرل سلیمانی ٹرمپ انتظامیہ کے ریڈار میں آئے تھے ۔ ان پر حملہ کی منصوبہ بندی کو حتمی شکل گزشتہ ہفتے عراق میں امریکی کنٹریکٹر کی ہلاکت کے بعد دی گئی