بغداد: (ویب ڈیسک) عراق میں ایرانی لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد امریکی اتحادی افواج نے اپنے فوجیوں کا انخلاء شروع کر دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق تین جنوری کو امریکا کی طرف سے عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران اور امریکا میں کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی انتباہی انداز میں بتا رہے ہیں کہ اگر امریکی مفادات پر حملے کیے گئے تو بدلے میں ایران کے 52 ثقافتی جگہوں پر حملے کیے جائیں گے۔ یونیسکو کی طرف سے 52 ثقافتی جگہوں پر حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔
اُدھر امریکی صدر کی دھمکی کے جواب میں ایران کے صدر حسن روحانی، وزیر خارجہ جواد ظریف، پاسداران انقلاب کے نئے سربراہ قاسم قاآنی اور آرمی چیف نے بھی جوابی کارروائی کا اعلان کیا جس کے بعد مشرق وسطی میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق عراق کی پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی قرار داد، جس کے مطابق امریکی فوج کو ملک سے نکلنے کا حکم دیا گیا ہے، کے بعد امریکی اتحادی افواج نے اپنا ہیڈ کوارٹر عراق سے کویت منتقل کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق کو دھمکی دی تھی کہ اگر ہمیں مجبور کیا گیا کہ عراق سے امریکی فوجیوں کو نکالیں تو ایران سے بھی بد تر پابندیاں عراق پر لگا دیں گے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق سب سے پہلے جرمنی نے اپنی افواج کو عراق سے نکالنے کا آغاز کیا، عراق سے 35 فوجیوں کو عارضی طور پر اُردن اور کویت منتقل کر دیا گیا۔
خبر رساں ادارے کے مطابق کروشیا نے بھی نے اپنے فوجی عراق سے کویت منتقل کر دیئے۔ ان کے فوجیوں کی تعداد 14 ہے جنہیں مشرق وسطی میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد کویت سٹی منتقل کیا گیا ہے۔
خبر ایجنسی کے مطابق جرمنی، کروشیا کے بعد کینیڈا نے بھی اپنی افواج عراق سے نکال لیں۔
برطانیہ کا کہنا ہے کہ اگر عراق افواج نکالنے کا کہے گا تو ہم بھی ملک سے افواج نکال لیں گے۔
اس سے قبل امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ عراق میں تعینات امریکی فوج کو وہاں سے نکالنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
امریکی میڈیا میں چھپنے والی بعض رپورٹوں کے مطابق امریکا کی طرف سے لکھے گئے ایک ملٹری خط میں عراقی حکام کو مطلع کیا گیا کہ عراق میں تعینات امریکی فوج کو وہاں سے نکال کر کسی اور جگہ منتقل کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
رائٹرز کے مطابق عراقی حکام کو لکھے گئے امریکی ملٹری خط میں کہا گیا کہ امریکی سربراہی میں عراق میں تعینات اتحادی فورسز وہاں سے نکلنے کے لیے ہیلی کاپٹرز کا استعمال کرینگی۔
اسی تناظر میں امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ فوری طور پر عراق کو چھوڑنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ عراق چھوڑنے کی تیاری کا بھی کوئی منصوبہ جاری نہیں کیا گیا، مجھے نہیں معلوم کہ وہ خط کیا ہے، ہم جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور وہ ہے کیا۔ مگر عراق کو چھوڑنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ بات ختم۔
امریکی ملٹری جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مارک مِلی کا کہنا تھا کہ خط دراصل ڈرافٹ دستاویز تھی جس میں امریکی فورسز کی نقل و حرکت میں اضافے کا ذکر کیا گیا تھا مگر غیر واضح ہونے کے سبب اسے انخلاء کا منصوبہ سمجھ لیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بہرحال ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔
رائٹرز کے مطابق تاہم عراقی وزارت دفاع کے کمبائنڈ جوائنٹ آپریشنز کے نام لکھے گئے اس خط کے مستند ہونے کی تصدیق عراقی فوجی ذرائع نے بھی کی تھی۔