کورونا وائرس سب سے زیادہ خطرناک وائرس ہے: امریکی ڈاکٹر کا دعویٰ

Last Updated On 28 March,2020 06:27 pm

واشنگٹن: (دنیا نیوز) 6 امریکی صدورکے مشیر رہنے والے انفیکشن کے امریکی ماہر ڈاکٹر فاؤچی کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس اب تک سامنے آنے والے کسی بھی وائرس سے زیادہ خطرناک ہے، انہوں نے اس مہلک وائرس سے مطلق کئی ایسے دعوؤں کو بھی مسترد کر دیا جن پر اکثر لوگ یقین کرتے ہیں۔

انفیکشن کے امریکی ماہرڈاکٹر فاؤچی چھ امریکی صدور کے مشیر رہ چکے ہیں اور کئی عالمی وباؤں کو بذات خود دیکھنے اور سمجھنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا اس سے پہلے منظر عام پر آنے والے کسی بھی دوسرے وائرس سے زیادہ خطرناک ہے۔

اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ وائرس انتہائی تیزی کے ساتھ ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے اور کسی بھی دوسرے وائرس سے دس گنا تیزی کے ساتھ اپنے جیسے دوسرے وائرس پیدا کرتا ہے۔۔

ان کا کہنا ہے کہ ایبولا وائرس خطرناک تھا لیکن ایبولا صرف انتہائی بیمار شخص کے انتہائی قریب رہنے سے دوسرے بندے میں منتقل ہوجاتا تھا لیکن یہ وائرس بہت مختلف ہے۔ یہ جلدی پھیلتا ہے اور متاثرہ شخص کو ہاتھ لگائے بغیر بھی دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر فاؤچی کا کہنا تھا کہ اس کے بارے میں ایک اور خطرناک بات یہ ہے کہ اس سے پہلے کبھی اس طرح کے وائرس سے واسطہ نہیں پڑا جو کسی بھی موسم میں پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ دوسرے وائرس کے مقابلے میں کورونا وائرس کسی بھی موسم میں دس گنا تیزی کے ساتھ پھیلتا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ کورونا وائرس سانس کے ذریعے پھیلتا ہے، متاثرہ شخص چھینکے، جمائی لے یا کھانس لے، اس کے منہ سے نکلنے والے ابی بخارات ہوا میں معلق رہتے ہیں اور قریبی کسی بھی انسان کے سانس میں شامل ہوکر اسے متاثر کر سکتے ہیں۔

امریکی سائنسدان کا مزید کہنا ہے کہ اگر متاثرہ شخص منہ پر ہاتھ رکھ کر کھانسے، بظاہر تو اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا، لیکن وہ آپ سے ہاتھ ملائے یا دروازہ کھولے، آپ یہ کہہ کر بالکل مطمئن نہ ہوں کہ آپ نے ساری چیزیں صاف کر لی ہیں۔

ڈاکٹر فاؤچی کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی دروازہ بند کرے اور 15 منٹ بعد آپ دروازے کو چھو لیں، وائرس آپ میں منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ کورونا وائرس کسی بھی سطح پر کئی گھنٹوں تک زندہ رہتا ہے۔ اگر آپ سچ مچ اس سے بچنا چاہتے ہیں تو سماجی رابطے سے دور رہیں، کسی سے ہاتھ نہ ملائیں، چھوڑ دیں اسے اور جتنا ہوسکے اپنے ہاتھ دھوتے رہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کہنا غلط ہےکہ نوجوان سے وائرس سے متاثر نہیں ہوتے یا نوجوان اس کی شدت کو سہہ جاتے ہیں۔ نوجوان ہونے کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ آپ اس وائرس سے محفوظ ہیں۔ ہم نے کئی ایسے کیسز دیکھے ہیں، اکثر نوجوان اس بیماری کو برداشت کر لیتے ہیں لیکن کئی نہیں کر پاتے۔ تیس یا چالیس سال کے جوان بھی بیمار ہوکر ہسپتال پہنچ جائیں تو انہیں آئی سی یو میں رکھنا ضروری ہے۔

امریکی سائنسدان کا کہنا تھا کہ دوسرا مسئلہ جو زیادہ اہم ہے، اگر آپ معمولی بیمار ہے اور وائرس سے متاثرہ ہونے کی معمولی علامات ظاہر ہوئی ہیں، آپ کسی دوسرے ایسے شخص کو متاثر کر سکتے ہیں جس کی قوت مدافعت اس بیماری کو سہنے کے قابل نہیں، تو آپ کی وجہ سے وہ بندہ مر سکتا ہے۔

ڈاکٹر فاؤچی نے کورونا کے علاج میں موثر کسی بھی دوا کی موجودگی کو مسترد کر دیا، وہ کہتے ہیں کہ اب تک کوئی ایسی دوا موجود نہیں جو کورونا کے علاج میں مددگار ہو۔ اس لیے لوگوں کو سوشل میڈیا پر یا خود ساختہ ماہرین کے مشورے پر عمل نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ کئی ایسی دوائیں ہیں جو دوسری بیماریوں کے لیے موثر ہیں جیسا کہ ملیریا کے لیے کلوروکین اور دیگر دوائیں، لوگ کہتے ہیں کہ یہ دوائیں کام کرتی ہیں لیکن ابھی تک کسی نے ثابت نہیں کیا۔ انٹرنیٹ پر ان دواؤں کے بارے میں بہت کچھ کہا جارہا ہے اور لوگ پر جوش بھی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ دوائیں کام کر جائیں لیکن اس کی کئی دیگر پچیدگیاں ہوسکتی ہیں۔

ڈاکٹر فاؤچی نے اس بات کی بھی تردید کردی کہ صرف دو ہفتے قرنطینہ کرنے سے بیماری کو روکنا ممکن ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایسا صرف اس وقت ممکن ہے جب بیماری کے پھیلاؤ کی شدت میں کمی آگئی ہو اور اس کا گراف اونچائی کی آخری حد کو چھو کر واپس نیچے کی طرف آرہا ہو۔ تب دو ہفتوں تک لاک ڈاؤن کرنے سے مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے چین اور کوریا کی مثال دیتے ہوئے سمجھایا کہ ان دونوں ملکوں کو یہ وائرس محدود کرنے میں آٹھ ہفتوں سے زیادہ وقت لگا۔ ڈاکٹر فاؤچی نے اس افواہ کی بھی تردید کی کہ ایک بار اس مرض میں مبتلا ہونے والا شخص دوبارہ مبتلا نہیں ہوگا،، ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے،، اور جامع تحقیق کے بعد ہی کوئی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔