کورونا وائرس: سپین کا معیشت کے کچھ حصوں کو کھولنے کا فیصلہ

Last Updated On 13 April,2020 08:50 pm

بارسلونا: (ویب ڈیسک) سپین میں کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے عائد پابندیاں نرم کی جا رہی ہیں، سپین نے وبا میں کمی آنے پر اپنی معیشت کے کچھ حصوں کو کھولنے کا فیصلہ کیا ہے، پیداواری اور تعمیراتی شعبے کے کارکنوں کو کام پر واپس جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپین میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ اس کے باوود حکومت نے معیشت کے کچھ حصوں کو کھولنے کا فیصلہ کیا ہے، حکام نے کمپنیوں کو پابند کیا ہے کہ وہ ملازمین کو حفاظتی سامان فراہم کریں جبکہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ انکے ملازمین کام پر دو میٹر کا سماجی فاصلہ برقرار رکھیں۔

واضح رہے کہ سپین ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ تباہی ہوئی۔

اسپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچز نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے اثرات صرف صحت عامہ پر ہی نہیں بلکہ معیشت اور سماجی زندگی پر بھی پڑے ہیں۔ ایسے اقدامات جاری رکھنا ہوں گے جن سے اس وبا کو روکا جا سکے۔ معیشت کو مکمل تباہی سے روکنا بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس سے ملک میں روزگار بھی شدت سے متاثر ہوا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی کامیابی بہت دور ہے۔ ہم سب دوبارہ سے گلیوں میں نکلنے کو بے تاب ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہماری خواہش ہے کہ اس جنگ کو جیتا جائے اور وبا کے دوبارہ حملے سے بچا جائے۔

اُدھر روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ ان کے ملک میں کورونا وائرس کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔

ریاستی سرپرستی میں چلنے والے چینل روسییا 24 پر نشر کی جانے والے ایک سرکاری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ صورتحال روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہو رہی ہے، اور یہ بہتر نہیں ہو رہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بیمار افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ایسے افراد کی بھی جو بیماری کی وجہ سے شدید بیمار ہو رہے ہیں۔ بہت سے حوالوں سے آئندہ آنے والے چند ہفتے فیصلہ کُن ہوں گے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی بحری جہاز یو ایس ایس تھیوڈور روز ویلٹ کا کپتان آئی سی یو میں داخل تھا جہاں وہ نہ جانبر نہ ہو سکا اور چل بسا۔

یاد رہے کہ جہاز کے عملے میں کورونا وائرس کے بدترین پھیلاؤ کا انکشاف کرنے پر امریکی بحریہ نے کپتان کو معطل کر دیا تھا۔ امریکی بحری جہاز پر ساڑھے پانچ سو سے زائد عملے میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔

دوسری طرف امریکا میں متعدی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی کا کہنا ہے کہ اگر کاروبار اور معمول کی زندگی شروع کرنے کے لیے عجلت کی گئی تو کورونا وائرس کے مزید پھیلنے کا شدید خطرہ ہو گا۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ملک میں معمول کی زندگی یکم مئی سے بحال کرنے کے بارے میں غور کر رہا ہوں۔

انتھونی فاؤچی نے نشریاتی ادارے  سی این این  سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکا میں کاروبار دوبارہ شروع کرنے کی خاطر سماجی فاصلے کی پابندی 30 اپریل سے ختم کرنے کی صورت میں خطرناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ ہمیں امید تھی کہ آئندہ ماہ کسی وقت ملک میں کاروباری سرگرمیاں کسی قدر بحال کی جا سکیں گی تاہم اسکی صورتحال ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف ہو گی۔

انتھونی فاؤچی کے مطابق کاروباری سرگرمیاں کھولنے کا انحصار کورونا وائرس کے نئے کیسز کی تعداد پر ہو گا۔ حفاظتی تدابیر کے باوجود مزید لوگ اس وائرس میں مبتلا ہوں گے۔

یاد رہے کہ امریکا میں کرونا وائرس سے اب تک 22ہزار ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ 56 ہزار مصدقہ کیسز سامنے آئے ہیں۔

دریں اثناء برطانیہ میں 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس سے مزید 717 اموات ہوئی ہیں، تعداد 11ہزار329 ہوگئی ہے جبکہ مزید 4ہزار 342 مریضوں کی تصدیق ہوئی ہے جس کے بعد تعداد 88 ہزار 621 تک پہنچ گئی۔

بلجیم میں مزید 303، سپین 280 ،نیدرلینڈز 86، پرتگال میں 31 اموات ہوئیں، ایرا ن میں مزید111 مریض جاں بحق ہو گئے جس کے بعد جاں بحق افراد کی تعداد ساڑھے 4ہزار ہوگئی۔

سعودی عرب میں چوبیس گھنٹوں کے دوران 6 مریض چل بسے، جس کے بعد ملک بھر میں ہلاکتوں کی تعداد 65 ہوگئی، انڈونیشیا میں مزید 26، بنگلا دیش 5، متحدہ عرب امارات3، افغانستان میں 3، مراکش ، قازقستان میں مزید2،2، ملائیشیا، کویت، آذر بائیجان میں 1،1 شہری جاں بحق ہو گیا۔

دریں اثناء ریڈ کراس کی عالمی کمیٹی نے کہا ہے کہ لیبیا کے عوام کو پہلے ہی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں اور اگر ان حالات میں کرونا کی وبا پھیل گئی تو سخت تباہی مچے گی۔

عالمی ریڈکراس کمیٹی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسے کرونا وائرس کے حوالے سے لیبیا کے متعلق سخت تشویش ہے۔ وہاں پہلے ہی حالات دگرگوں ہیں اور وہ ملک اس وبا کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس ابھرتے ہوئے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے امداد اور وسائل کی ضرورت ہو گی۔

مزید برآں مصر میں کورونا وائرس سے انتقال کر جانے والی ایک خاتون ڈاکٹر کی تدفین روکنے کے الزام میں 23 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

مصر کے چیف پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ تدفین میں خلل ڈالنے کی کوشش "دہشت گردی" ہے، تمام ملزمان کی حراست لیا گیا تھا جس میں 15 دن کی توسیع کردی گئی ہے تاکہ اس عرصے کے دوران ان کے خلاف جاری تحقیقات مکمل کرلی جائیں۔

حکام کے مطابق 64 سالہ خاتون ڈاکٹر نہرِ سوئز کے کنارے آباد اسماعیلیہ شہر کے ایک ہسپتال میں زیرِ علاج تھیں جہاں جمعے کو ان کا انتقال ہوگیا تھا۔

خاتون ڈاکٹر کی میت تدفین کے لیے ان کے شوہر کے آبائی گاؤں منتقل کی جا رہی تھی کہ درجنوں دیہاتیوں نے ان کی تدفین روکنے کے لیے گاؤں کے قبرستان کی طرف جانے والی سڑک بلاک کردی اور احتجاج کیا۔

حکام کے مطابق دیہاتیوں کا خیال تھا کہ میت کی تدفین سے ان کے گاؤں میں بھی کورونا وائرس پھیل سکتا ہے۔ دیہاتیوں نے میت لے جانے والی ایمبولینس پر پتھراؤ کرکے اس کے شیشے بھی توڑ دیے تھے۔

بعد ازاں پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کرکے سڑک کھول دی تھی اور احتجاج کرنے والے 23 افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ کورونا کے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں کے سبب طبی عملے کو شہریوں کے نامناسب رویے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

 

Advertisement