کابل: (ویب ڈیسک) افغانستان کی اعلیٰ کونسل برائے قومی مفاہمت کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ بین الافغان مذاکرات شروع ہونے پر طالبان کے ساتھ ملک میں عبوری حکومت کے قیام سے متعلق بات چیت کے لیے بھی تیار ہیں۔
تفصیلات کے مطابق عبداللہ عبداللہ نے یہ گفتگو تنازعات کے حل اور ان کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ادارے امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس میں ایک مباحثے کے دوران کی۔
مباحثے کے دوران افغان رہنما سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ افغان حکومت اور طالبان کی مشترکہ عبوری حکومت کے قیام سے متعلق طالبان کی تجویز تسلیم کر سکتے ہیں؟
عبداللہ عبداللہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ فریقین کو کئی دہائیوں سے جاری دشمنی ختم کرنے کے لیے سمجھوتہ کرنے پر تیار رہنا چاہیے۔ اسلئے مذاکرات کی میز پر آئیں اور وہاں بات کریں۔
عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے خیالات میں لچک پیدا کرنی ہو گی۔ اب ہمیں پائیدار امن کے راستے پر چلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
یاد رہے کہ عبداللہ عبداللہ کا یہ بیان افغان صدر اشرف غنی کے اس حالیہ بیان کے بالکل برعکس ہے جس میں انہوں نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے پیشِ نظر عبوری حکومت کے قیام کے لیے اپنے عہدے سے دست برداری کے امکان کو مسترد کیا تھا۔
رواں ماہ کے آغاز میں صدر اشرف غنی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عبوری حکومت کے قیام سے متعلق کوئی بھی بحث قبل از وقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ افغان عوام کی مرضی سے کام کر رہے ہیں، طالبان کی مرضی سے نہیں۔
خیال رہے کہ عبداللہ عبداللہ افغان صدر اشرف غنی کے حریف رہے ہیں۔ گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں دونوں رہنماؤں نے کامیابی کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم گزشتہ ماہ دونوں رہنماؤں کے درمیان شراکت اقتدار کا ایک معاہدہ طے پا گیا تھا۔ معاہدے کے بعد عبداللہ عبداللہ کو طالبان کے ساتھ امن عمل کی قیادت سونپی گئی ہے۔
عبداللہ عبداللہ کے حالیہ بیان پر افغان صدر یا ان کے دفتر سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
طالبان صدر اشرف غنی کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ افغان حکومت کو امریکا کے افغانستان پر غیر قانونی قبضے کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔
اپنے خطاب میں طالبان کے افغان فورسز پر بڑھتے ہوئے حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ ایسے واقعات افغان امن عمل کے لیے ہماری سنجیدگی کو امتحان میں ڈال سکتے ہیں۔
ان کے مطابق پُر تشدد واقعات سے امن عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور ان کے بقول انہوں نے اپنے ان خدشات سے طالبان کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔
واضح رہے افغان حکام اور طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ملاقات پر اتفاق کر چکے ہیں لیکن ملاقات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
عبداللہ عبداللہ نے اپنی گفتگو کے دوران واضح کیا کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات تب تک شروع نہیں کرنا چاہتے جب تک حکومت ان کے تمام پانچ ہزار قیدی رہا نہیں کر دیتی۔
انہوں نے کہا کہ 75 فیصد قیدیوں کو رہا کیا جا چکا ہے جب کہ باقی کو بھی جلد رہا کر دیا جائے گا۔
عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ طالبان نے بھی بدلے میں ایک ہزار افغان سیکیورٹی اہلکار رہا کرنے ہیں جن میں سے 600 قیدی رہا ہو چکے ہیں۔