مکہ مکرمہ: (دنیا نیوز) غلاف کعبہ کی تبدیلی کے موقع پر قدرت مہربان، مکہ مکرمہ، منیٰ اور عرفات میں باران رحمت ہوئی جس سے حجاج کرام کے چہرے کھل اٹھے۔
مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کو غسل دينے اور تبدیلی غلافِ کعبہ کی پروقار تقریب ہوئی۔ حرمین شریفن کے امور کے سربراہ شیخ عبدالرحمان السدیس نے تقریب کی نگرانی کی، تقریب میں کلید بردار کعبہ، منتظمین، سعودی حکام اور غلاف ساز کسوہ فیکٹری کے ذمہ دار بھی شریک ہوئے۔
خانہ کعبہ کو غسل دينے کے بعد خالص سونے، چاندی کی تاروں اور خالص ریشم سے تیار کردہ غلاف کعبہ تبدیل کیا گیا۔ غلاف کی تیاری میں 100 کلو گرام سے زائد خالص سونا، چاندی اور 675 کلو گرام خالص ریشم استعمال کی گئی ہے۔
غلاف کعبہ کی لمبائی 50 فٹ اور چوڑائی 35 سے 40 فٹ ہے۔ اس کی تیاری پر 24 ملین سعودی رالچ لاگت آئی۔ غلاف کعبہ کے 4 کونوں پر سورہ اخلاص منقش ہے۔ اس کے علاوہ غلاف پر مختلف آیات قرآنی پر مشتمل 16 پٹیاں الگ سے جوڑی گئی ہیں۔ جن پر آیات ربانی کو سونے، چاندی اور خالص ریشم سے تحریر کیا گیا ہے۔
غلاف کعبہ کو مکہ المکرمہ کی دارالکسوہ فیکٹری میں تیار کیا گیا۔ غلاف کعبہ کی تیاری کے امور کے لیے علیحدہ محکمہ اورام الجود بندرگاہ پر اس کا ایک خصوصی کارخانہ قائم ہے جس میں غلاف کعبہ کی جدید ترین تکنیک کے مطابق تیاری کے لیے تمام ضروری انتظامات کیے گئے ہیں۔
یہ کارخانہ ہر سال بیت اللہ کا ایک نیا غلاف تیار کرتا ہے جسے 9 ذی الحج کو پورے تزک و احتشام کے ساتھ خانہ کعبہ کی زینت بنایا جاتا ہے۔ خانہ کعبہ کو ہر سال 2 مرتبہ شعبان اور ذی الحجہ کے مہینے میں غسل دیا جاتا ہے۔
اتارے جانے والے غلاف کعبہ کسوہ کو ٹکڑوں کی شکل میں بیرونی ممالک سے آئے ہوئے سربراہان مملکت اور دیگر معززین کو بطور تحفہ پیش کر دیا جاتا ہے۔ 1962 میں غلاف کعبہ کی تیاری کی سعادت پاکستان کے حصے میں بھی آئی تھی۔
حجاج دن بھر عرفات میں قیام اور مغرب کی اذان کے بعد مزدلفہ روانہ ہو جائیں گے جہاں نماز مغرب اور عشاء ملا کر ادا کی جائے گی، رات بھر مزدلفہ میں کھلے میدان اور پہاڑوں پر قیام ہوگا۔ اللہ کے مہمان جمعہ کی فجر کی نماز کے بعد منیٰ روانہ ہوں گے، جہاں وہ شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعد قربانی کریں گے اور سر منڈوا کر احرام کھول دیں گے پھر طواف زیارت ہوگا۔
کورونا کی وجہ سے اس بار صرف سعودی عرب میں مقیم غیر ملکیوں اور سعودی شہریوں کو ہی حج کی اجازت دی گئی تھی۔ 70 فیصد عازمین حج غیر ملکی ہیں جو سعودی عرب میں ہی مقیم تھے جن میں پاکستانیوں کی بھی کثیر تعداد شامل ہے۔