ایک انچ زمین پر بھی سمجھوتہ نہیں ہو گا:چین کابھارت کو جواب،ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش

Published On 05 September,2020 05:22 pm

ماسکو: (ویب ڈیسک) چین نے بھارتی وفد سے ملاقات سے کے بعد ایک سخت بیان میں کہا کہ لداخ میں سرحدی کشیدگی کے لیے پوری طرح سے بھارت ذمہ دار ہے اور اپنی سرزمین کا ایک انچ بھی نہیں چھوڑیں گے، اگر جنگ شروع ہوئی تو بھارت کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ ہماری فوج بھارتی فوج سے زیادہ مضبوط ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے بعد ثالثی کی پیشکش ہے۔

تفصیلات کے مطابق ایسے وقت جب لداخ میں لائن اف ایکچوؤل کنٹرول پر چین اور بھارت کے مابین زبردست کشیدگی ہے، چین نے ایک بار پھر اس تناؤ کی ذمہ داری بھارت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ چینی فوج ملکی سالیمت کے تحفظ کے لیے پر عزم ہیں۔ ماسکو میں چینی اور بھارتی وزیر دفاع کے درمیان ایک اہم میٹنگ کے بعد یہ بیان سامنے آیا ہے۔

ایل اے سی پر کشیدگی کو دور کرنے کے مقصد سے ماسکو میں بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور ان کے چینی ہم منصب وی فینگے کے درمیان تقریبا ڈھائی گھنٹے کی ملاقات ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: لداخ: چینی فوج نے دورانِ جھڑپ کرنل سمیت 20 بھارتی فوجی مار دیئے، متعدد لاپتہ

دونوں رہنما  شنگھائی تعاون تنظیم‘ کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے روس کے دورے پر تھے۔ اس ملاقات کے چند گھنٹے بعد ہی چین کی حکومت کی طرف جاری بیان میں ایل اے سی پر بھارتی حرکتوں پر شدید نکتہ چینی کی گئی ہے۔

بیجنگ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گياکہ چین اور بھارت کے درمیان سرحد پر موجودہ کشیدگی کی وجوہات اور اس کی حقیقت پوری طرح سے واضح ہے، اس کے لیے بھارت پوری طرح سے ذمہ دار ہے۔ چین اپنی سرزمین کا ایک انچ بھی نہیں کھو سکتا اور اس کی مسلح افواج قومی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے تئیں پوری طرح پرعزم، پر اعتماد اور قابل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لداخ کشیدگی: چینی فوج نے ایک اور بھارتی کمانڈو کو موت کے گھاٹ اُتار دیا

بیان میں چین نے کہا کہ بھارت صدر شی جن پنگ اور نریندرا مودی کے درمیان طے پانے والے معاہدوں پر دلجمعی سے عمل کرے اور تصفیہ طلب مسائل مذکرات اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیں۔

چینی بیان میں کہا گیا کہ چین اور بھارت کے درمیان تعلقات کو مزید اچھا کرنے، علاقائی امن و استحکام کی مجموعی صورتحال کو بہتر بنانے اور سرحدی علاقوں میں امن و امان کی حفاظت کرنے جیسے معاملات پر فریقین کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر جنگ شروع ہوئی تو بھارت کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں۔ کیونکہ چین کی فوج بھارتی فوج سے زیادہ مضبوط ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چین نے لداخ میں ایک ہزار مربع کلومیٹر علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت اورچین کے درمیان تنازع ختم کرانے کے لیے تعاون کی پیشکش کی ہے۔ بھارت چین صورتحال انتہائی خراب تھی، ہم سےکچھ ممکن ہوتو مدد کرنےکو تیار ہیں۔

دوسری جانب بھارتی وزارت دفاع کی جانب جاری ایک بیان میں سرحد پر کشیدگی کے لیے چینی کارروائیوں کو ذمہ دار بتایا گيا ہے۔

یاد رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر تنازعہ کی ابتدا رواں برس مئی میں ہوئی تھی اور جون کے وسط میں وادی گلوان میں دونوں فوجیوں کے درمیان ہونے والے ایک تصادم میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

اس واقعے کے بعد سے فریقین کے درمیان فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت کے کئی ادوار ہوچکی ہیں، تاہم کسی پیش رفت کے بجائے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

تازہ کشیدگی وجہ پیونگانگ جھییل کے جنوبی علاقے میں 30 اگست کی درمیانی شب بھارتی فوج کی کارروائی بتائی جاتی ہے جس میں بھارتی فوجوں نے جھیل سے متصل اونچی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: چین کیساتھ سرحد پر صورتحال کشیدہ اور خطرناک ہے : بھارتی آرمی چیف

بھارت نے چین پر اشتعال انگیزی کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ چینی فوج نے اس علاقے میں صورت حال کو بدلنے کی کوشش کی جس کا بھارتی فوج کو پہلے سے پتہ چل گیا تھا اور بھارتی فوج نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔

لیکن چین نے اسے بھارتی فوجیوں کی دراندازی بتاتے ہوئے بھارت سے سخت احتجاج کیا تھا اور ان کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔

چینی سفارت خانے کی ترجمان جی رونگ کا کہنا تھا کہ فریقین کے درمیان 31 اگست کو جن امور پر اتفاق ہوا تھا، بھارتی فوجیوں نے، اس کی صریحاًخلاف ورزی کی ہے۔

جی رونگ نے بھارتی افواج کے بارے میں کہا کہ انہوں نے پینگانگ سو جھیل کے جنوبی علاقے اور مغربی علاقے میں لائن آف کنٹرول کو پار کیا اور ایسی اشتعال انگیز کارروائیاں کیں، جس سے سرحدی علاقے میں دوبارہ حالات کشیدہ ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: لداخ تنازع: بھارت میں چین کیساتھ معاہدے کو شکست سے تعبیر کیا جانے لگا

لداخ میں اس وقت بھارت اور چین کے کئی ہزار فوجی لائن آف ایکچوؤل کنٹرول کے دونوں جانب تعینات ہیں اور ان تازہ واقعات کے بعد سے خطے میں فوجی نقل و حرکت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔

Advertisement