باکو: (ویب ڈیسک) آذری صدر الہام علیوف نے نگورنو کاراباخ کے معاملے پر آخر تک لڑنے کے عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دیکھا جائے آرمینیا نے شکست تسلیم کر لی ہے لیکن وہ ہتھیار نہیں ڈالنا چاہتا۔
ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر الہام علیوف نے کہا کہ اگر نگورنو کاراباخ سمیت دیگر علاقوں سے دستبرداری کے لیے آرمینین افواج کے ساتھ مذاکرات کے نتائج کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام ہوتے ہیں تو آذربائیجان کی افواج آخری تک لڑیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: آذر بائیجان کیساتھ جنگ میں ہمارے 773 اہلکار ہلاک ہو چکے:آرمینیا کی تصدیق
آذربائیجان کے صدر اور ترک وزیر خارجہ کے درمیان اہم میٹنگ ہوئی جس میں الہام علیوف کا کہنا تھا کہ آرمینیا کے پاس اس معاملے میں روس کے فوجی اڈے سے معاونت کی درخواست کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق روس کی طرف سے آرمینیا کا ساتھ دینے کے بعد ترک وزیر خارجہ چاوش اوغلو آذر بائیجان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے پہنچے ہیں۔ جو روس کے لیے ایک پیغام سمجھا جا رہا ہے۔
ترک وزیر خارجہ کا ملاقات کے دوران کہنا تھا ترکی اپنے اتحادی آذربائیجان کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے، ہم اپنے بھائیوں کا ہر حال میں ساتھ دیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: آذر بائیجان نے آرمینیا سے مزید 24 دیہات اور ایک شہر آزاد کروا لیا
بی بی سی کے مطابق موجودہ جنگ میں ترکی سے خریدے گئے ڈرونز ہتھیاروں کی وجہ سے آذربائیجان نے جنگ میں برتری حاصل کرلی ہے۔
الہام علیوف نے کہا کہ وہ اس مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے چاہتے ہیں جسکا نتیجہ آرمینیا فوج کی دستبرداری کی صورت میں ہو، بصورت دیگر ہم کسی بھی قیمت پر اپنی علاقائی خودمختاری کو بحال کریں گے اور آخر تک جائیں گی۔
آذربائیجان کے صدر کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نگورنو کاراباخ کے معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان جاری لڑائی کو تقریباً 6 ہفتے گزر چکے ہیں جب کہ دونوں فریقین ایک دوسرے پر نئے حملوں کے الزامات عائد کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آذر بائیجان نے ایرانی سرحد سے ملحق علاقے کو آزاد کروا کر جھنڈا لہرا دیا
دوسری جانب آذربائیجان کی وزارت دفاع نے عام آبادی کو نشانہ بنانے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہےکہ آرمینیا کی افواج سرحد پر موجود ہماری فورسز کو نشانہ بنارہی ہیں جبکہ سرحد کے قریب آبادی سمیت تارتار اور دیگر علاقوں پر بھی شیلنگ کی گئی۔
اُدھر آرمینیا کے وزیراعظم نیکول نے الزام عاید کیا ہے کہ ناگورنوقراباخ میں جاری فوجی کارروائی ترکی کی توسیع پسندانہ پالیسی کا حصہ ہے اور وہ اس پالیسی کے تحت مشرقِ اوسط میں سلطنتِ عثمانیہ کی بحالی چاہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’آذری افواج سرحد کے قریب پہنچ گئیں‘: روس نے آرمینیا کی مدد کی درخواست قبول کرلی
ان کا کہنا تھا کہمیرے خیال میں ہمیں اس تمام صورت حال کا ترکی کی توسیع پسندانہ پالیسی کے فریم ورک کے تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ترکی بحر متوسط سے باہر لیبیا ، شام اور عراق تک پاؤں پھیلا رہا ہے۔بنیادی طور پر یہ سلطنتِ عثمانیہ کو بحال کرنے کی پالیسی کا حصہ اور کوشش ہے۔