نوبیل امن انعام جیتنے والی خواتین

Published On 08 November,2020 08:49 pm

لاہور: (دنیا میگزین) تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں اس حقیقت سے آگاہی ہوتی ہے کہ دنیا میں صرف مردوں نے ہی اپنی قابلیت اور ذہانت کا سکہ نہیں جمایا بلکہ کئی عورتوں نے بھی یہ ثابت کیا کہ وہ ذہانت اور لیاقت میں مردوں سے کم نہیں۔ چاہے کوئی بھی میدان ہو، عورتوں نے اپنی غیرمعمولی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

نوبیل انعام جیتنے والے افراد غیر معمولی ہوتے ہیں اور یہ انعام مختلف شعبوں میں یادگار کارکردگی دکھانے والوں کو دیا جاتا ہے۔ اس میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں۔ ہم اس مضمون میں اپنے قارئین کو ان خواتین کے بارے میں بتا رہے ہیں جنہوں نے نوبیل امن انعام اپنے نام کیا۔

برتھا ون سٹز

پہلا نوبیل امن انعام جس خاتون کو ملا ان کا نام برتھا ون سٹز تھا۔ انہیں یہ انعام 1905 کو دیا گیا۔ برتھا کا تعلق آسٹریا سے تھا۔ انہوں نے ایک بڑا شاندار ناول بھی تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا ’’اپنے ہتھیار پھینک دو‘‘ (Lay down your arms) وہ 9 جون 1843 کو پیدا ہوئیں۔ اس نے بہت مصائب برداشت کئے۔ مالی تنگدستی کے باعث سٹز کو ٹیوٹر کی ملازمت اختیار کرنا پڑی۔ وہ چار بہنوں کو پڑھاتی تھیں۔ انہوں نے ان چار بہنوں کے بھائی آرتھر وون سٹز سے شادی کرلی۔ دونوں روس چلے گئے اور کوسٹیں میں آباد ہوگئے جہاں انہوں نے امیروں کے بچوں کو پڑھانا شروع کردیا۔ سٹز آسٹریا واپس آئیں تو انہوں نے جنگ اور امن کے مسائل پر توجہ دی۔ 1902 میں ان کے شوہر چل بسے۔ 1904 میں انہوں نے برلن میں عورتوں کی عالمی کانگرس سے خطاب کیا۔ انہوں نے جو ناول لکھے ان میں بھی انہوں نے اپنے نظریات کا پرچار کیا۔ ان کی الفریڈ نوبیل سے بھی دوستی تھی۔ اگرچہ برتھا مالی طور پر اتنی کامیاب نہیں رہیں لیکن وہ لوگ جو امن کی تحریک سے وابستہ تھے ان پر ان کے نظریات نے بہت اثر ڈالا۔ برتھا سٹز کی کئی کتابوں کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ 21 جون 1914 کو برتھا سٹز کا 71 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا۔

جین ایڈمز

امریکہ سے تعلق رکھنے والی جین ایڈمز 6 ستمبر1860 کو پیدا ہوئیں۔ وہ سماجی کارکن اور سیاسی کارکن تھیں۔ اس کے علاوہ وہ مصنف بھی تھیں اور انہوں نے لیکچرر کے طور پر بھی کام کیا۔ انہوں نے عمر بھر عالمی امن کے قیام کیلئے خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے شکاگو کے ہل ہائوس (Hull House) کی بنیاد رکھی۔ یہ امریکہ کے مشہور ترین آباد کاری گھروں میں سے ایک ہے۔ 1910 میں انہیں میپل یونیورسٹی کی طرف سے ایم اے کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ وہ پہلی خاتون تھیں جنہیں اعزازی ڈگری دی گئی۔ 1920 میں وہ ان افراد میں شامل تھیں جنہوں نے امریکی شہری آزادیوں کی یونین (ACLU) کی بنیاد رکھی۔ 1931 میں وہ امریکہ کی پہلی خاتون بن گئیں جنہیں نوبیل امن انعام دیا گیا۔ انہیں امریکہ میں سماجی کاموں کے پیشے کی بانی تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ عملیت پسند تھیں۔ انہیں ممتاز ترین مصلح (Reformer) بھی کہا جاتا ہے۔ جین ایڈمز کا انتقال 21 مئی 1935 کو 74 برس کی عمر میں ہوا۔

ایمی گرین بالچ

ان کا تعلق بھی امریکہ سے تھا۔ وہ تاریخ اور عمرانیات کی پروفیسر رہیں۔ وہ 8 جنوری 1867 کو بوسٹن میں پیدا ہوئیں۔ وہ ماہر معاشیات بھی تھیں۔ ان کے والد ایک کامیاب وکیل تھے اور وہ ایک زمانے میں امریکی سینیٹر چارلس سمنر کے سیکرٹری بھی رہے۔ انہوں نے 1889 میں برائن مار کالج سے گریجوایشن کی۔ انہوں نے 1893 میں اپنا تحقیقی کام شائع کیا۔ انہوں نے ہاروڈ یونیورسٹی‘ شکاگو یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف برلن سے تعلیم حاصل کی۔ 1896 میں انہوں نے ولیلے کالج میں پڑھانا شروع کیا۔ 1914 میں انہوں نے جنگ عظیم اول کے شروع میں امن کی تحریک میں حصہ لیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے شکاگو کی جین ایڈمز کے ساتھ مل کر کام کیا۔ خواتین کی بین الاقوامی لیگ برائے امن اور آزادی کی مرکزی رہنما بن کر سامنے آئیں۔ اس کے لئے 1946 میں انہیں نوبیل امن انعام سے نوازا گیا۔ وہ شروع سے ہی امن پسند تھیں۔ 9 جنوری 1961 کو ایمی گرین چل بسیں۔

بیٹی ولیمز اور مائریڈ میگوائر

یہ دونوں خواتین برطانیہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ 1976 میں ان دونوں کو نوبیل امن انعام دیا گیا۔ یہ دونوں شمالی آئرلینڈ امن تحریک کی بانی تھیں۔ بیٹی ولیمز کا اصل نام ایلزبتھ سمائتھ تھا اور وہ 22 مئی 1943 کو بلفاسٹ (شمالی آئرلینڈ) میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے تمام عمر انسانیت کے وقار کیلئے کام کیا۔ ولیمز نوبیل انعام جیتنے والوں کی کانفرنس کی بانی رکن بھی تھیں۔ اس کانفرنس کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے۔ انہوں نے امن‘ تعلیم‘ ایک دوسرے کے مذاہب کی تفہیم‘ انتہاپسندی کے خلاف اور بچوں کے حقوق جیسے موضوعات پر بے شمار لیکچر دیئے۔ 17 مارچ 2020 کو ان کا بلفاسٹ میں انتقال ہوگیا۔ مائریڈ میگوائر کا پیدائشی نام مائریڈ کوریگن تھا۔ وہ بلفاسٹ میں 27 جنوری 1944 کو پیدا ہوئیں۔ وہ شمالی آئرلینڈ کی امن کارکن (Peace activist) تھیں۔ انہوں نے بیٹی ولیمز اور سیارن میکوئن کے ساتھ مل کر ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام تھا وومین فار پیس۔ یہ ایک ایسی تنظیم تھی جس کا مقصد شمالی آئرلینڈ میں پیدا ہونے والے مسائل کے پرامن حل کیلئے کوششیں کرنا تھا۔ انہیں بیٹی ولیمز کے ساتھ 1976 میں مشترکہ طور پر نوبیل امن انعام دیا گیا۔ حالیہ برسوں میں انہوں نے غزہ کے حوالے سے اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید کی ہے۔ خاص طور پر بحری ناکہ بندی کی انہوں نے کھل کر تنقید کی۔ وہ امریکہ اور برطانیہ کی مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پالیسیوں پر بھی تنقید کرتی رہی ہیں۔ وہ ذاتی طور پر سابق امریکی صدر باراک اوبامہ کی قیادت کی بھی ناقد تھیں۔ امریکہ میں وہ جتنی متحرک تھیں اس کی وجہ سے کبھی کبھی ان کا قانون سے بھی تصادم ہو جاتا تھا۔ مائریڈ میگوائر حیات ہیں اور اپنا کام کر رہی ہیں۔

مدر ٹریسا

کا تعلق یوگو سلاویہ اور بھارت سے تھا۔ وہ 26اگست1910کو پیدا ہوئیں۔ وہ کیتھولک راہبہ اور مذہبی مبلغ تھیں۔ انسانیت کیلئے بے مثال خدمات سرانجام دینے پر مدر ٹریسا کو 1979 میں نوبیل امن انعام دیا گیا۔ انہیں کیتھولک چرچ سینٹ ٹیرسیا آف کلکتہ کا اعزاز دیا گیا۔ ٹریسا پہلے آئرلینڈ گئیں اور پھر بھارت چلی گئیں جہاں انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ گذارا۔ 1950 میں مد ٹریسا نے ’’خیرات کے مشتری‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اس میں4500 سے زیادہ راہبائیں(NUNS) تھیں۔ 2012 میں یہ تنظیم دنیا کے 133 ممالک کی متحرک تھی۔ یہ تنظیم ان لوگوں کیلئے گھروں کا انتظام کرتی تھی جو ایڈز اور تپ دق کی وجہ سے موت کی آغوش میں جا رہے ہیں۔ یہ تنظیم ڈسپنسریاں، موبائل کلینک بچوں اور خاندانی مشاورت کیلئے بھی کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ تنظیم یتیم خانے اور سکول بھی قائم کررہی ہے۔ مدر ٹریسا کو کئی اعزازت سے نواز گیا جن میں 1970 میں ملنے والا نو بل امن انعام بھی شامل ہے۔ دنیا کی کئی مشہور شخصیات نے مدر ٹریسا کو نہ صرف ان کی زندگی میں خراج تحسین پیش کیا بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے لئے توصیفی کلمات ادا کئے جا رہے ہیں۔ ان کی سوانح عمری نیونن چاولہ نے لکھی جو 1992 میں شائع ہوئی ۔ 5 ستمبر1997 کو مدر ٹریسا کا 87 برس کی عمر میں کلکتہ میں انتقال ہو گیا۔

ایلوا مارڈل

1982 کو سویڈن کی خاتون ایلوا مارڈل کو نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ وہ سابق وزیر ، سفارت کار اور مصنفہ تھیں۔ایلوا مارڈل31 جنوری1902 کو سویڈن میں پیدا ہوئیں۔وہ سیاست دان اور ماہر عمر انبات بھی تھیں۔ وہ تخفیف اسلحہ کی تحریک کی ممتاز رہنما تھیں۔ سویڈن کی قانون ساز اسمبلی کی رکن بننے سے پہلے ہی وہ اپنے شاندار کیریئر کی وجہ سے پہچانی جاتی تھیں۔ انہوں نے سول ڈیموکریٹک پارٹی کے ذریعے محنت کشوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے بہت کام کیا۔انہوں نے عورتوں کے حقوق کیلئے بھی آواز اٹھائی اور ان کا نام اس حوالے سے بھی لیا جاتا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد ایلوا نے اقوام متحدہ کے کئی اہم عہدوں پر کام کیا۔ انہیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے خود ان عہدوں کیلئے منتخب کیا تھا۔ وہ یونیسکو کے سماجی سائنس سیکشن کی سربراہ بھی تھیں۔ 1955ء میں انہوں نے بھارت میں سویڈن کے سفیر کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ سویڈن کے نمائندے کی حیثیت سے انہوں نے بڑی طاقتوں کو ترغیب دی کہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلح کر دیں۔ ایٹمی اسلحے کی دوڑ بھی ایک تشویشناک مسئلہ تھا ۔ انہوں نے یورپ میں ایٹمی اسلحے سے پاک زونز (Nuclear-freezones) کیلئے مسلسل جدوجہد کی۔ انہوں نے تمام عمر کامل یکسوئی کے ساتھ کیا۔ وہ اس بات کی آرزو مند تھیں کہ ہر ملک پر عزم ہو کر اپنے علاقے میں ایٹمی اسلحے پر پابندی لگائے یکم فروری1986 کو ایلوار مائرڈل اس جہان فانی سے رخصت ہو گئیں۔

اونگ سین سوکی

انہیں 1991 میں نوبیل امن انعام دیا گیا۔ ان کا تعلق برما سے تھا انہوں نے جمہوریت اور انسانی حقوق کیلئے پر امن جدوجہد کی۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور انہیں کئی ایوارڈز ملے۔ وہ برما کی وزیرخارجہ رہیں۔ 19 جون 1945 کو پیدا ہونے والی اونگ سین کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی تھا۔ یہ ایک اتفاق تھا کہ جب اونگ سین سوکی 1986 میں برما واپس آئیں تو برما کے فوجی حکمران جنرل نی ون نے اقتدار چھوڑ دیا۔ 26اگست1988 کو انہوں نے پانچ لاکھ افراد سے خطاب کیا۔ وہ جمہوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کر رہی تھیں لیکن ستمبر میں ایک اور فوجی حکومت نے اقتدار سنبھال لیا۔ وہ مہاتمام گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفہ سے بہت متاثر تھیں۔ اس کے علاوہ بدھ ازم نے بھی ان کی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے۔20 جولائی 1989 کو انہیں گھر میں نظر بند کر دیاگیا۔ انہیں کہا گیا کہ اگر وہ رہائی چاہتی ہیں تو ملک چھوڑ دیں۔ لیکن اونگ سین سوکی نے انکار کر دیا۔ وہ ابھی تک حیات ہیں۔

رگو برٹا سیچو

گوئٹے مالا سے تعلق رکھنے والی اس خاتون کو 1992 میں نوبیل امن انعام دیا گیا۔ رگو برٹا نے سماجی انصاف کیلئے بہت کام کیا ان کے علاوہ نسلی اور ثقافتی ہم آہنگی کیلئے بھی ان کی کاوشیں قابل تحسین تھیں۔ وہ 1959 کوپیدا ہوئیں نوبیل امن انعام کے علاوہ انہیں اور بھی کئی اعزازت سے نوازا گیا۔ وہ ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندان ان لوگوں میں سے تھا جو زمین کے چند ٹکڑوں پر گذارا نہیں کر سکتا تھا۔ یہ زمین کے ٹکڑے ان کے مقدر میں آئے جو سپین کے گوئٹے مالا کے حملے کے بعد رہ گئے تھے۔ ان کے دو بھائیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ انہوں نے قربانیاں بھی دیں اور سماجی انصاف کیلئے بھرپور جدوجہد کی۔

جوڈی ولیمز

انہیں 1997 میں نوبیل امن انعام دیا گیا۔ ان کا سب سے بڑا کام یہ تھا کہ انہوں نے امریکہ میں ان سرنگوں پر پابندی لگائی جو وہاں کام کرنے والے عملے کی جانوں کیلئے خطرہ تھیں۔ وہ19اکتوبر1950 کو امریکہ میں پیدا ہوئیں اور اعلی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے بارودی سرنگیں بند کرنے کا مطالبہ کیا ولیمز کو انسانی حقوق اور عالمی سلامتی کے حوالے سے کی گئی کاوشوں کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہیں ’’وومن آف دی ایئر‘‘ کا بھی خطاب دیا گیا۔ انہوں نے کئی اخبارات اور جرائد کیلئے مضامین لکھے۔ 6 مارچ2013 کو ان کی یاداشتیں(Memoris)شائع ہوئیں۔ ان کی عمر 70 برس ہو چکی ہے۔ اور ان کی زندگی کا کارواں جاری ہے۔

شیریں عبادی

اس ایرانی خاتون کو 2003میں جمہوریت اور انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کرنے پر نوبیل امن انعام دیا گیا۔ انہوں نے عورتوں اور بچوں کے حقوق کیلئے بہت جدوجہد کی۔ وہ 21 جون1947 کو ایران میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے یونیورسٹی آف تہران سے تعلیم حاصل کی۔ وہ وکیل بھی رہیں اور جج کے طور پر بھی کام کرتی رہیں۔ نوبیل امن انعام کے علاوہ بھی انہیں کوئی اور اعزازت بھی دیئے گئے۔

ایلن جانسن اور لیما گبووی

لائبیریا سے تعلق رکھنے والی ان دونوں خواتین کو 2011 میں مشترکہ طور پر نوبیل امن انعام دیا گیا۔ انہوں نے عورتوں کے تحفظ اور حقوق کیلئے پر امن جدوجہد کی۔اس طرح یمن کی توکول کرمان کو بھی ان کی اس امن کیلئے بے مثال جدوجہد پر نوبیل امن انعام دیا گیا۔

ملالہ یوسف زئی

پاکستانی خاتون ملالہ یوسف زئی کو 2014 میں نوبیل انعام دیا گیا۔ وہ پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جنہیں یہ انعام ملا انہوں نے بچوں پر کئے جانے والے مظالم کے خلاف جدوجہد کی ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تمام بچوں کو سکول بھیجا جائے تاکہ وہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو سکیں۔ 12جولائی 1997 کو منگورہ(سوات) میں جنم لینے والی ملالہ یوسف زئی نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ نوبیل انعام حاصل کرنے والوں میں ان کی عمر سب سے کم ہے۔ انہیں ملک کی ممتاز ترین خاتون بھی کہا جاتا ہے۔ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا لیکن وہ معجزاتی طورپر بچ گئیں۔ انہیں کئی اور ایوارڈز بھی دئیے گئے۔

تحریر: عبدالحفیظ ظفر