کابل: (ویب ڈیسک) افغان طالبان نے افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی میں التوا کے امکان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے مجاہد امریکی فوجیوں کی واپسی میں کسی طرح کی توسیع پر کبھی بھی رضامند نہیں ہوں گے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جرمن خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے مجاہد کسی توسیع پر کبھی راضی نہیں ہوں گے۔ نیٹو، امریکا اور تمام فریقین اس بات پر متفق ہوچکے تھے کہ اگر وہ موجودہ بحران پر قابو پانا چاہتے ہیں تو اس کا سب سے بہتر حل یہ ہے کہ جس معاہدے پر دستخط ہوچکے ہیں اسے نافذ کیا جائے۔
یاد رہے کہ 2020 کے اوائل میں امریکا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ یکم مئی 2021 تک افغانستان سے اپنی تمام فوج واپس نکال لے گا۔ اس کے بدلے میں افغان طالبان نے افغانستان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے انخلاء کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا: نیٹوسیکرٹری جنرل
افغان حکام کا الزام ہے کہ طالبان معاہدے کے تحت کیے گئے دیگر وعدوں کی بھی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ مثال کے طورپر طالبان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ تعاون کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور ملک میں تشدد کی سطح بھی بہت زیادہ ہوگئی ہے۔
نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ نے جمعرات کو کہا تھا کہ نیٹو کے ممالک اگلے نوٹس تک افغانستان میں اپنا مشن جاری رکھیں گے۔
جرمن میڈیا کے مطابق طالبان افغانستان میں موجودہ صورت حال کا کوئی سفارتی حل چاہتے ہیں لیکن انہوں نے معاہدے کی کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے انٹرویو کے دوران کہا کہ خدا نخواستہ اگر معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو افغانستان کے عوام اپنا دفاع خود کریں گے جیسا کہ انہوں نے پچھلے بیس برسوں کے دوران کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان امن عمل کی حمایت جاری رکھیں گے: امریکی وزیر خارجہ کا اشرف غنی کو ٹیلیفون
ترجمان طالبان نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ مئی میں ہی ہوگا، اگر اس وقت تک بھی بین الاقوامی افواج ملک میں رہتی ہیں۔ اگر سفارتی راستہ بند ہوجاتا ہے تو جنگ کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ کار نہیں رہ جائے گا۔
پچھلے کئی ہفتوں سے تعطل کا شکار افغان مذاکرات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے گروپ کے مابین جاری صلاح و مشورہ کا سلسلہ چل رہا ہے۔ ہم مذاکرات سے الگ نہیں ہوئے ہیں اور ہم مذاکرات کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔