برسلز: (ویب ڈیسک) سیکرٹری جنرل نیٹو ینزسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ نیٹو نے افغانستان سے فوج واپس بلانے سے متعلق تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ تشدد زدہ ملک سے نیٹو کی افواج واپس بلانے اور نہ بلانے سے متعلق تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں غیر ملکی افواج نے کھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری ہے، نیٹو ممالک یکم مئی کی ڈیڈ لائن پر توجہ دینے سے گریزاں ہیں اور امن عمل کے تعطل کے باعث جمہوریت کی طرف پیشرفت کو نقصان پہنچانے کا خطرہ ہے۔
نیٹو کی وزرائے دفاع کی ویڈیو کانفرنس کے دوران نیٹو سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ افغانستان سے فوج کے انخلاء سے متعلق تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے، اس معاملے پر آنے والے ہفتوں کے دوران نیٹو کے اتحادی ممالک آئندہ ہفتوں میں قریبی مشاورت اور ہم آہنگی کو جاری رکھیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان امن عمل کی حمایت جاری رکھیں گے: امریکی وزیر خارجہ کا اشرف غنی کو ٹیلیفون
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم بہت سارے المیوں کا سامنا کر رہے ہیں اور اس کا کوئی آسان حال نہیں ہے۔ اگر ہم مئی کے بعد افغانستان میں رہتے ہیں تو وہاں پر مزید تشدد کا خطرہ ہے، جس کے بعد ہمارے جوانوں پر حملے ہو سکتے ہیں، لیکن اگر ہم تشدد زدہ ملک سے اپنی افواج واپس بلا لیتے ہیں تو مزید خدشہ ہے کہ وہاں پر مزید ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔۔ اسی وجہ سے ہم اپنے اتحادیوں سے مشاورت جاری رکھیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز نیٹو کے سیکرٹری جنرل ینزسٹولٹن برگ نے طالبان پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان پر تشدد کارروائیاں چھوڑ دیں اور نیک نیتی کے ساتھ افغان حکومت سے مذاکرات کریں جبکہ صحیح وقت آنے سے پہلے تشدد زدہ ملک سے واپس نہیں جائینگے۔
اے ایف پی کے مطابق نیٹو سیکرٹری جنرل نے کہا کہ فوج کے کسی بھی ممکنہ انخلا کا انحصار زمینی حقائق پر ہوگا۔ ہمارا مشترکہ مقصد واضح ہے۔ افغانستان کو پھر کبھی دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بننا چاہیے جہاں سے وہ ہمارے ملکوں پر حملہ کریں۔ کوئی اتحادی ضرورت سے زیادہ دیر تک افغانستان میں نہیں رہنا چاہتا۔ ہم صحیح وقت آنے سے پہلے نہیں جائیں گے۔ نیٹو وزرائے دفاع موقعے پر موجود صورت حال کا جائزہ لیتے رہیں گے اور حالات پر گہری نظر رکھیں گے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کو 2020 کے معاہدے کی شرائط کے تحت مزید اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ مئی تک غیر ملکی فوج کا انخلا ممکن ہو سکے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وعدے پورے کرنے کے معاملے میں اب بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ طالبان مزید اقدامات کریں اور عالمی دہشت گردوں کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کا خاتمہ یقینی بنائیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان امن کا خواہشمند، افغانستان میں تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں: وزیراعظم
مزید برآں نیوزی لینڈ نے افغانستان سے رواں برس مئی میں اپنی فوج کے مکمل انخلا کا اعلان کیا ہے۔
نیوزی لیںڈ کی وزیرِ اعظم جسینڈا آرڈرن نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ وہ افغانستان میں 20 سال سے جاری جنگ میں خدمات انجام دینے کے بعد وہاں تعینات اپنے باقی ماندہ فوجی اہلکاروں کو مئی میں واپس وطن بلا رہی ہیں۔ افغانستان میں نیوزی لینڈ ڈیفنس فورس (این زیڈ ڈی ایف) کی 20 سال سے موجودگی کے بعد اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بیرونِ ملک فوج کی تعیناتی ختم کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی اندرونی طاقتوں کے درمیان مذاکرات سے واضح ہوتا ہے کہ شورش زدہ ملک میں داخلی امن پائیدار سیاسی حل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس لیے افغانستان میں نیوزی لینڈ کی فوج کی مزید ضرورت نہیں۔
یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے افغانستان سے ترجیحی بنیادوں پر اپنی فوج واپس بلانے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ گذشتہ برس فروری 2020 میں طے پانے والے معاہدے میں کہا گیا تھا کہ اگر طالبان اپنے وعدوں پر عمل کرتے ہیں اور اگر وہ القاعدہ یا دیگر عسکریت پسندوں کو وہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں کام نہیں کرنے دیں گے اور قومی امن مذاکرات کے تحت آگے بڑھیں گے تو امریکا اور اس کے نیٹو اتحادی 14 ماہ میں تمام فوجیں افغانستان سے واپس بلا لیں گے۔
اس سے قبل امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے افغانستان کے صدر اشرف غنی سے ٹیلیفونک رابطے کے دوران کہا ہے کہ افغان امن عمل کی حمایت جاری رکھیں گے۔
Good to speak with Afghan President @ashrafghani about the status of the U.S. review of its strategy in Afghanistan. We will support the Afghanistan peace process, aiming for a just and durable political settlement and a permanent and comprehensive ceasefire.
— Secretary Antony Blinken (@SecBlinken) February 18, 2021
’رائٹرز‘ نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں بتایا ہے کہ امریکی سیکرٹری وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا افغان صدر اشرف غنی کیساتھ ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے، جس میں افغان امن عمل کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے لکھا کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ساتھ ٹیلیفونک رابطے کے دوران امریکا کی افغانستان میں نئی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ ہم افغانستان میں امن عمل کی حمایت جاری رکھیں گے۔ افغان مسئلے کے سیاسی اور دیر پا حل کے لیے پر عزم ہیں۔
رائٹرز کے مطابق جوبائیڈن انتظامیہ نے رواں ماہ کے آغاز پر کہا تھا کہ افغانستان میں حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے نئی پالیسی بنائی جائے گی۔ جو بائیڈن انتظامیہ کا کہنا تھا کہ وہ سابق صدر ٹرمپ اور طالبان کے درمیان طے ہوئے افغان امن معاہدے کا جائزہ لے گی۔
امریکی صدارتی دفتر کی ترجمان کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاوس اس بات کی یقین دہانی کرنا چاہتا ہے کہ افغان طالبان ملک میں تشدد میں کمی اور دہشت گرد عناصر سے اپنے تعلقات ختم کرنے سمیت اس معاہدے کے تحت کیے گئے اپنے وعدوں کی پاسداری کر رہے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے اعلیٰ مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان نے اس جائزے کی تصدیق کے لیے افغان حکام سے بات کی ہے۔ افغانستان میں حالیہ چند ماہ کے دوران ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آئی ہے۔