نیو یارک: (دنیا نیوز) عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکی صدر نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو ٹیلیفون کیوں نہ کیا؟ امریکی سینیٹر لنزے گراہم نے جوبائیڈن کو تنقید کا نشانہ بنا دیا۔
ٹوئٹرپرپوسٹ کرتے ہوئے ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے معروف امریکی سینیٹر لنزے گراہم کا کہنا تھا کہ انہیں یہ سن کر شدید حیرت ہوئی ہےکہ صدر بائیڈن نے ابھی تک امریکا پاکستان تعلقات اور افغانستان کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے رابطہ نہیں کیا ہے۔
Stunning to hear that President Biden hasn’t reached out to the Prime Minister of Pakistan Imran Khan regarding the U.S.-Pakistan relationship and Afghanistan.
— Lindsey Graham (@LindseyGrahamSC) June 22, 2021
How do we expect our withdrawal from Afghanistan to be effective without coordinating with Pakistan? Clearly the Biden Administration believes that our problems in Afghanistan are behind us.
— Lindsey Graham (@LindseyGrahamSC) June 22, 2021
I believe that this decision by the Biden Administration to withdraw all forces and not stay engaged with Pakistan is a major disaster in the making, even worse than the blunder in Iraq.
— Lindsey Graham (@LindseyGrahamSC) June 22, 2021
لنزے گراہم کا کہنا تھا کہ ہم کیسے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ پاکستان سے بات چیت کے بغیر افغانستان سے ہماری واپسی مؤثرثابت ہوگی؟ بائیڈن انتظامیہ کو واضح طور پر یہ لگتا ہےکہ افغانستان میں ہمارے مسائل حل ہوچکے ہیں۔
امریکی سینیٹر کا کہنا تھا کہ افغانستان سے تمام افواج نکالنے اور اس حوالے سے پاکستان سے رابطہ نہ کرنےکا بائیڈن انتظامیہ کا فیصلہ بہت بڑی تباہی ہوگا یہاں تک کہ یہ عراق میں کی جانے والی غلطی سے بھی بڑی غلطی ہوگی۔
دوسری طرف ترجمان پینٹاگون جان کربی کا کہنا ہے کہ طالبان کی کارروائیوں اور حاصل ہونے والے فوائد کے باعث افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا عمل سست کیا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ پینٹاگون حکام نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ افغانستان میں 20 سال تک القاعدہ کے خلاف لڑنے اور حکومت کو طالبان سے لڑائی میں مدد کے بعد صدر جو بائیڈن نے فوجیوں کے انخلا کا حکم دیا ہے جو تقریباً آدھا مکمل ہو چکا ہے۔
امریکی صدر کے احکامات کے وقت تقریباً اڑھائی ہزار امریکی فوجی اور 16 ہزار کنٹریکٹرز، جن میں سے زیادہ تر امریکی ہیں، افغانستان میں موجود تھے۔
پینٹاگون نے پہلے ہی اپنے کئی اہم اڈوں کو حکومتی افواج کے حوالے کر دیا ہے اور مختلف ساز و سامان سے لدے سینکڑوں کارگو جہازوں کو بھی ہٹا دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جان کربی نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈ لائن برقرار رہے گی تاہم انخلا کے عمل کو صورت حال کی مناسبت سے ایڈجسٹ کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں طالبان کی جانب سے اضلاع پر حملوں اور تشدد کی کارروائیوں کے بعد صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔ اگر کسی بھی دن یا ہفتے کے دوران فوجیوں کے انخلا کی رفتار میں تبدیلی کی ضرورت پڑی تو ہم اس ضمن میں لچک کا مظاہرہ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ہر ایک دن کا مسلسل بغور جائزہ لے رہے ہیں، کہ صورت حال کیا ہے، ہمارے پاس کیا کچھ ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں، ہمیں مزید کن ذرائع کی ضرورت ہے اور ہم نے افغانستان سے نکلنے کے لیے کیا رفتار رکھنی ہے۔ یہ تمام فیصلے مطلوبہ وقت پر کیے جائیں گے۔
جان کربی کا کہنا ہے کہ امریکی افواج طالبان سے لڑائی میں افغان فوجیوں کی مدد کرتی رہیں گی۔ ہم اپنی استعداد کے مطابق افغان فوجیوں کا ساتھ دیں گے، لیکن جوں جوں واپسی کا عمل تکمیل کے قریب پہنچے گا یہ سلسلہ کم ہوتا جائے گا اور اس کے بعد دستیاب نہیں ہوگا۔