کابل: (ویب ڈیسک) افغان طالبان کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے قندوز ایئر پورٹ پر جنگی حکمت عملی کے تحت دو امریکی ہیلی کاپٹر (Sikorsky UH-60 Black Hawk) تباہ کر دیئے ہیں، یہ دو امریکی ہیلی کاپٹر افغان فضائیہ کے استعمال میں تھے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ اس حملوں کے دوران افغان فضائیہ کو متعدد ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
وړمه ورځ چې د کندز په هوایي ډګر کې د دښمن بلیک هاک هلیکوپترې په تکتیکي برید کې له منځه یوړل شوې او بیا دښمن انکار ترې وکړ، دلته یې لنډه ویډیو کتلای شئ. pic.twitter.com/zxz4gFfDjA
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) July 12, 2021
ذبیح اللہ مجاہد نے ٹویٹر پر ڈرون ویڈیو جاری کی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دو ہیلی کاپٹرز کو آگ لگی ہوئی ہے۔
دوسری طرف افغان طالبان نے واضح انداز میں بتایا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی جعلی بیانات، ویڈیو اور خطرات سے متعلق خطوط پر دھیان نہ دیا جائے ، یہ جعلی مواد جنگ زدہ ملک کے مختلف حصوں میں پھیلایا جا رہا ہے، ان مواد کا ہمارے سے کوئی تعلق نہیں۔
اُدھر قطرکے دارالحکومت میں دوحہ میں افغان طالبان کے سیاسی ترجمان محمد نعیم نے بھی ٹویٹر پر ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہمارے دشمنوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر ہمارے خلاف تمام پروپیگنڈوں کا مقصد خوف اور اضطراب پیدا کرنا ہے۔
— Dr.M.Naeem (@IeaOffice) July 12, 2021
انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں ذلت آمیز شکستوں کا سامنا کرنے کے باعث ہزاروں فوجی افغان فوج کو چھوڑ کر مجاہدین کا ساتھ دینے کے لیے آ رہے ہیں۔ 200 سے زائد ضلعوں پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے خلاف ہمارا دشمن بے بنیاد پروپیگنڈا اور من گھڑت سازشیں کر رہا ہے۔
مزید برآں افغانستان میں جنگ کے بادل مزید گہرے ہو رہے ہیں، طالبان نے اہم شہروں پر حملے تیز کر دیئے، جنگجو گروہ نے اہم شہر غزنی کا محاصرہ کرلیا۔ ملک کے دوسرے بڑے شہر قندھار پر بھی شدید حملے جاری ہیں۔
افغان فوج کا کہناہے کہ طالبان لوگوں کے گھروں میں گھس کر افغان فورسز پر فائرنگ کررہے ہیں۔
افغان حکومت نے قندھار کو طالبان کے قبضے سے خالی کرانے کے لئے سپیشل فورسز کے مزید دستے بھیج دیئے۔ ہلمند میں بم دھماکے میں تین افراد ہلاک ہوگئے۔
امریکی جنرل آسٹن ملر افغانستان میں فوج کی سربراہی سے سبکدوش ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں امریکا کی طویل ترین جنگ کا علامتی اختتام ہوگیا۔ کابل میں موجود اہلکاروں کی کمان جنرل مک کینزی کو مل گئی۔
برطانوی فوج کے سربراہ نِک کارٹر کا کہنا تھا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑے گا، کیونکہ افغانستان میں 60 فیصد عوام کا تعلق دیگر قومیتوں سے ہے جو پشتون طالبان کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔
جنرل نِک کارٹر کا کہنا تھا کہ اگر افغان حکومت کابل اور صوبائی دارالحکومتوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھتی ہے تو طالبان پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔
افغان صوبے قندوز میں فوج اور حکومت کے درمیان شدید لڑائی کے نتیجے میں ہزاروں افغان خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔