واشنگٹن: (ویب ڈیسک) امریکی صدر جوزف بائیڈن نے رواں سال کے آخر تک عراق میں عسکری مشن کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم انسداد دہشت گردی سے متعلق اپنا تعاون جاری رہے گا۔
وائٹ ہاؤس میں عراقی وزیر اعظم مصطفی القدیمی سے ملاقات کے بعد جوزف بائیڈن کا کہنا تھا کہ عراق میں اب بھی موجود 2500 امریکی فوجیوں کے لیے یہ ایک نیا مرحلہ ہوگا۔ عراق میں اب ہمارا کردار دستیابی، تربیت جاری رکھنے، امداد پہنچانے، مدد کرنے اور جب کبھی بھی اسلامک اسٹیٹ اپنا سر اٹھائے اس سے نمٹنا ہو گا لیکن اس برس کے اواخر تک ہم لڑائی کے میدان میں نہیں ہوں گے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق عراق میں اسلامی شدت پسند تنظیم داعش سے نمٹنے میں امریکی افواج نے فعال کردار ادا کیا ہے۔ امریکا نے جس نئے منصوبے کا اعلان کیا ہے اس میں عراق سے فوجی انخلا کی بات نہیں کی گئی ہے بلکہ وہ موجود رہے گی تاہم جنگی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے بجائے عراقی فورسز کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ لاجیسٹکس اور صلاح و مشورہ فراہم کرے گی۔
عراق میں سرگرم ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروپوں کا وزیر اعظم مصطفی القدیمی پر زبردست دباؤ رہا ہے کہ عراقی سر زمین پر امریکی افواج کی موجودگی جلد از جلد ختم ہونی چاہیے۔ عراق میں عام انتخابات سے تین ماہ قبل یہ اہم فیصلہ سامنے آیا ہے۔
امریکا نے عراق میں عسکری سرگرمیوں کو بند کرنے کا اعلان ایسے وقت کیا ہے جب افغانستان میں جاری 20 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے مکمل فوجی انخلا کا عمل جاری ہے۔ تاہم مکمل انخلا سے قبل ہی طالبان جنگجوؤں نے کافی پیش قدمی کر لی ہے۔
ایک سینیئر افسر کا کہنا تھا کا عراقی فوجی جنگی امتحان سے گزر چکے ہیں اور وہ اپنے ملک کا دفاع کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم القدیمی بھی یہی کہتے رہے ہیں کہ عراقی فورسز بذات خود ملک کی سکیورٹی سنبھالنے کے لائق ہیں۔