کابل: (دنیا نیوز) افغان دارالحکومت کابل میں بیشتر بینک اور سرکاری دفاتر بند ہونے کے باعث شہریوں کا مشکلات کا سامنا ہے۔ اے ٹی ایم کے باہر لوگوں کی لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ عالمی ادارہ برائے خوراک نے کہا ہے کہ افغانستان میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، برفباری سے قبل ایک کروڑ سے زائد شہریوں کی خوراک کا انتظام کرنا ہوگا۔
تفصیل کے مطابق افغانستان میں طالبان کے قبضے کے ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود معمولات زندگی بحال نہیں ہو سکے ہیں۔ کابل میں بینک اور منی ایکسچینج بند ہیں جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اے ٹی ایم کے باہر لوگوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ بینکوں نے دس ہزار افغانی سے زیادہ پیسے نکالنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ طالبان کے معاشی شعبے کے سربراہ مولوی احمد جان نے بینکوں سے کام شروع کرنے کی اپیل کی تھی مگر پھر بھی کام کا آغاز نہیں ہو سکا ہے۔
کابل میں تجارتی سرگرمیاں بھی مکمل بحال نہیں ہو سکی ہیں۔ تاجر کاروبار کھولنے میں ہچکچا رہے ہیں۔ ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بعض سرکاری اور نجی دفاتری بھی بند ہیں۔
افغانستان کے مختلف اضلاع سے کابل آنے والے شہری ایک ہفتے سے پاسپورٹ آفس کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ سرکاری ملازمین دفاتر کے باہر سے واپس چلے جاتے ہیں۔
ملازمین کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے ابھی دفاتر میں کام شروع کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ طالبان رہنما کا کہنا ہے کہ پاسپورٹ آفس سمیت دیگر ادارے جلد کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ادھر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کا کہنا ہے کہ افغانستان میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے،، 1کروڑ 40 لاکھ افراد کو کھانے پینے کی اشیا میسر نہیں، برف باری سے راستے بند ہونے سے قبل لوگوں تک خوراک پہنچانا ہوگی۔
برطانوی وزیر دفاع نے اکتیس اگست کی ڈیڈ لائن کے بعد بھی انخلا جاری رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بین والس نے برطانوی اخبار میں اپنے کالم میں لکھا کہ مقررہ ڈیڈ لائن تک کوئی بھی ملک افغانستان سے مکمل انخلا نہیں کر پائے گا، امید ہے امریکا کو ڈیڈ لائن میں توسیع مل جائے گی۔