کابل ائیرپورٹ کے باہر دھماکے، 13 امریکی فوجیوں سمیت 110 افراد ہلاک

Published On 27 August,2021 08:42 am

کابل: (دنیا نیوز) کابل ائیرپورٹ کے باہر یکے بعد دیگرے ہونے والے دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد 170 ہوگئی، 13 امریکی فوجی بھی مارے گئے۔ دھماکوں کی ذمہ داری کالعدم داعش خراسان نے قبول کرلی۔

پہلا دھماکہ ایئر پورٹ کے باہر بیرن ہوٹل کے سامنے ہوا، دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی، سکیورٹی اہلکار حالات سنبھالنے کے لئے کوشاں تھے کہ کابل ائیرپورٹ کے باہر یکے بعد دیگرے تین دھماکے ہوئے جس میں افغانستان سے باہر جانے کی کوشش کرنے والے نشانہ بن گئے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق پہلا دھماکہ ائیرپورٹ کے باہر بیرن ہوٹل کے سامنے ہوا، کچھ دیر بعد ائیرپورٹ کے گیٹ پر دوسرا دھماکہ ہوا جہاں لوگوں کا جم غفیر جمع تھا۔ جائے وقوعہ پر دل دہلا دینے والے مناظر تھے، لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو وہاں سے نکالا۔

امریکی میڈیا ’اے بی سی‘ نیوز کے مطابق کابل میں ہونے والے دھماکوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 170 تک پہنچ گئی ہے جبکہ تاحال سینکڑوں افراد شدید زخمی کی حالت میں ہسپتال میں داخل ہیں۔

پینٹا گون نے کابل دھماکوں میں 13 امریکی فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔جبکہ 19 امریکی اہلکار شدید زخمی ہیں جنہیں طبی امداد کے لیے جرمنی منتقل کر دیا گیا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جس مقام پر دھماکہ ہوا وہاں سیکیورٹی کی ذمہ داری امریکی فورسز کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اپنے لوگوں کی سیکیورٹی پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں اور شرپسندوں سے پوری طاقت کے ساتھ نمٹا جائے گا۔ افغان نیوز ایجنسی کے مطابق دہشت گرد تنظیم داعش خراسان نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

یو ایس کمانڈر سینٹرل کمانڈ جنرل مکینزی نے کہا ہے کہ داعش کے حملے جاری رہنے کا خدشہ ہے، ایک ہزار فوجی اب بھی افغانستان میں موجود ہیں، انخلا کا عمل جاری رکھیں گے۔

برطانیہ نے دھماکے کے بعد بھی انخلاء کا عمل جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ فرانسیسی صدر کا کہنا ہے کہ 20 بسوں پر سوار فرانسیسی اور افغان شہریوں کو ائیرپورٹ تک پہنچانے کے لیے طالبان سے بات چیت ہو رہی ہے، فرانس کا آخری جہاز 27 اگست کو کابل ائیرپورٹ سے روانہ ہوگا۔ جرمن چانسلر نے کہا کہ جو لوگ کابل میں رہ گئے ہیں، ان کو بھولے نہیں ہیں، ان کو نکالنے کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں اور طالبان سے بات چیت بھی جاری ہے۔

Advertisement