کیف :(ویب ڈیسک ) روس نے جنگ کے دوران کئی ماہ کی ناکامیوں کے بعد مشرقی یوکرین میں نمک کی کان کنی والے شہر سولیدار پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے ۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق دونوں فریقین کو سولیدار شہر میں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے تاہم یوکرینی افواج کا کہنا ہے کہ شدید لڑائی ابھی بھی جاری ہے ۔
روسی وزارت دفاع کی جانب سے جمعے کی رات اعلان کیا گیا کہ سولیدار کی آزادی کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے اور یہ فتح ڈونیٹسک کے علاقے میں مزید کامیاب آپریشنز کا باعث بنے گی ، 10ہزار نفوس پر مشتمل اس چھوٹے سے شہر پر روسی قبضے کے بعد کریملین کی جانب سے قدرے اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے ۔
روسی حکومت کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کے گروپ کے سربراہ کا دعویٰ ہے کہ روسی سرکاری افواج کے بجائے ویگنر نے سولیدار پر حملے کی قیادت کی ہے۔
دوسری جانب یوکرین نے روس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سولیدار میں یوکرین اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کیلئے پرعزم ہے ۔
اس سے قبل یوکرین کی وزیر دفاع گانہ میلر نے اسے جنگ کا مشکل مرحلہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ سولیدار پر قبضے کے لیے روس نے ڈونیٹسک کے علاقے کے گرد اپنی فوج تعینات کر دی ہے ، سولیدار کا قبضہ حاصل کرنے سے روسی افواج اپنے اصل ہدف بخموت شہر کو نشانہ بنانے کی بہتر پوزیشن میں آ سکتی ہیں۔
روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ سولیدار پر قبضے سے یوکرینی افواج کا گھیراؤ اور ان کے سپلائی کے راستوں کو منقطع کرنا بھی ممکن ہوگا۔
اس حوالے سے امریکی ادارہ سٹڈی آف وار کا کہنا ہے کہ روس نے سولیدار کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور اس معمولی فتح سے بخموت کے گھیراؤ کا امکان نہیں ہے۔
روس کے علاوہ یوکرینی فوج کو بھی سولیدار اور بخموت کے قبضے کی جنگ میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اس نے اپنے اتحادیوں سے مزید ہتھیاروں کا مطالبہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ یوکرین اپنے اتحادیوں سے کئی مرتبہ مغربی ٹینک، طیارے اور طویل فاصلے تک نشانہ بنانے والے ہتھیار فراہم کرنے کا مطالبہ کرچکا ہے ۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس 24 فروری کو روسی صدر پوتن نے یوکرین پر حملے کا حکم دیا تھا۔