کابل : ( ویب ڈیسک ) اقوام متحدہ کے ترجمان کے مطابق طالبان نے اقوام متحدہ کے عملے کی افغان خواتین ورکرز کے پورے افغانستان میں کام کرنے پر پابندی لگانے کا حکم جاری کیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ترجمان نے کہا کہ یہ افغانستان میں امدادی تنظیموں کے کام کرنے کی صلاحیت کو کمزور کرنے والے پریشان کن رجحان کا تازہ ترین واقعہ ہے جہاں تقریباً 23 ملین افراد ( ملک کی نصف سے زیادہ آبادی ) کو مدد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی افغان خواتین پر کسی بھی پابندی کو ناقابل قبول اور واضح طور پر ناقابل فہم تصور کریں گے۔
اقوام متحدہ کے ذرائع نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ہم ابھی تک اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ اس پیش رفت سے ہماری کارروائیوں پر کیا اثر پڑے گا اور ہم توقع کر رہے ہیں کہ کابل میں ڈی فیکٹو حکام کے ساتھ مزید ملاقاتیں ہوں گی، ہم کچھ وضاحت تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمارے پاس ابھی تک تحریری طور پر کچھ نہیں ہے۔
علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے مشن (یو این اے ایم اے) نے افغانستان میں اپنے تمام مرد و خواتین عملے کو سکیورٹی خدشات کی بنا پر آئندہ 48 گھنٹوں تک کام پر نہ آنے کی ہدایت کی ہے۔
واضح رہے کہ طالبان انتظامیہ جس نے 20 سال کی جنگ کے بعد افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد اقتدار پر قبضہ کیا ہے کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی قانون کی اپنی تشریح کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتی ہے۔
کابل میں مغربی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے طالبان نے خواتین کی عوامی زندگی تک رسائی پر کنٹرول سخت کر دیا ہے جس میں خواتین کی یونیورسٹیوں میں تعلیم پر پابندی اور لڑکیوں کے زیادہ تر ہائی سکولوں کو بند کرنا شامل ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں طالبان حکام نے این جی اوز کی زیادہ تر خواتین ملازمین کو بھی کام کرنے سے روکا تھا۔
خیال رہے کہ طالبان حکام کی جانب سے خبر پر ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔