برلن : ( ویب ڈیسک ) ہولوکاسٹ کے دوران ہونے والے جرائم پر سزا پانے والے نازی کیمپ کے معمر ترین گارڈ کا 102 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق جوزف شوٹز کو گزشتہ جون میں 1942 اور 1945 کے درمیان برلن کے قریب ساکسن ہاؤسن میں ہزاروں قیدیوں کے قتل میں معاونت کرنے پر مجرم قرار دیا گیا تھا اور اسے پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی لیکن وہ وفاقی عدالت انصاف میں اپیل کے نتیجے کے انتظار میں آزاد رہا۔
جوزف شوٹز نے ہمیشہ کیمپ گارڈ کے طور پر کام کرنے سے انکار کیا اور اس کے بجائے دعویٰ کیا کہ وہ ایک کسان تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ساکسن ہاؤسن میں دسیوں ہزار لوگ بھوک، جبری مشقت، طبی تجربات اور کیمپ گارڈز کے ہاتھوں موت کا شکار ہوئے تھے۔
ساکسن ہاؤسن میں 200,000 سے زیادہ لوگ قید تھے جن میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ ساتھ یہودی، روما اور سنٹی (خانہ بدوش) بھی شامل تھے۔
شوٹز نے اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جرمن عدالت کو بتایا تھا کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں یہاں کٹہرے میں بطور مجرم کیوں کھڑا ہوں، میرا واقعی اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
ایک ایس ایس گارڈ کی دستاویزات پر اس کے نام اور پیدائش کی تفصیلات ملنے کے باوجود اس نے دعویٰ کیا کہ وہ کیمپ میں کام نہیں کرتا تھا بلکہ ایک کسان تھا۔