لاہور: (دنیانیوز) جی 20 کی آڑ میں مودی کی خون سے کھیلی گئی ہولی سب پر آشکار ہوگئی اور بھارت میں کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے کی گونج ہر طرف سے آنے لگی۔
بھارتی سیاسی جماعتیں اور کشمیری رہنما مودی کی کشمیر میں ریاستی حیثیت بحال کرنے پر یک زبان ہوگئے ہیں اور سب کا موقف اس معاملے پر ایک ہوچکا ہے کہ” کشمیر مودی کی جاگیر نہیں بن سکتا اور مودی سرکاری کو شُتر بے مہار کی مانند نہیں چھوڑا جا سکتا"۔
حکومتی وزرا کے بد حواسی اور پریشانی میں دیے گئے اعلانات اب مودی کا پیچھا کر رہے ہیں ، 14 فروری کو بھارتی وزیر داخلہ نے کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ریاستی انتخابات کے بعد کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کر دی جائے گی جس کے بعد سابق وزیراعلیٰ مقبوضہ کمشیر فاروق عبداللہ نے کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال نہ کرنے کی صورت میں انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔
گزشتہ سال نومبر میں جموں وکشمیر اپنی پارٹی کے سربراہ الطاف بخاری نے اس معاملے کو سپریم کورٹ لے جانے کا اعلان کیا تو اسی ماہ 13 نومبر کو عام آدمی پارٹی نے بھی جلد از جلد کمشیر کی ریاست بحالی کا مطالبہ کر دیا تھا۔
محبوبہ مفتی نے سال رواں کے آغاز پر یکم جنوری کو بھارتی چیف جسٹس کو خط لکھا جس میں ان سے کشمیریوں کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
کانگرس رہنما وقار رسول وانی نے رواں سال 16 فروری کو مودی سرکار کو کشمیر کی ریاستی حیثیت جلد از جلد بحال کرنے کا الٹی میٹم دیا جس کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے کرن سنگھ نے بھی کشمیر کی ریاستی بحالی پر آواز اٹھائی اور کہا کہ کشمیر برطانوی راج میں سب سے بڑی ریاست تھی جسے اب یونین کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
کشمیر سے متعلق بھارت میں اٹھتی آوازوں کے بعد اب یہ سوال کھڑا ہوگیا ہے کہ کیا اقوامِ عالم کے سامنے مُودی اور بھارت کا یہ بھیانک رُوپ جی20 کی آڑ میں چھپ سکتا ہے؟ کیا کشمیر مودی کی جاگیر بن کر ظلم و زیادتی کا اسی طرح شکار ہوتا رہے گا؟ اور کیا عالمی میڈیا کشمیریوں پر ہونے والے بدترین اور ناروا سلوک پر خاموش تماشائی بنا رہے گا؟
کئی حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کومودی کی بہیمانہ دراندازیوں کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ کشمیریوں کو ظلم و زیادتی کی بھینٹ چڑھنے سے بچایا جا سکے۔