ترکیہ میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ، تیاریاں جاری

Published On 13 May,2023 10:29 am

انقرہ : (ویب ڈیسک ) ترکیہ میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کل ہونے جارہے ہیں جس میں 6 کروڑ 40لاکھ ووٹرزحق رائے دہی استعمال کریں گے۔

 رپورٹس کے مطابق ترک ووٹر 14 مئی کو پانچ سال کیلئے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ملک کے اقتدار کا فیصلہ کریں گے، یہ الیکشن ایک ایسے وقت پر ہو رہے ہیں جب ترکی کو معاشی بدحالی، مہنگائی اور فروری میں آنیوالے شدید زلزلے کا سامنا کرنا پڑا۔

رواں انتخابات میں 6 ملین نئے ووٹرز شامل ہوئے ہیں جبکہ 3۔4 ملین ووٹرز بیرون ممالک سے ووٹ ڈال سکیں گے ۔

 ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمان کی 600 نشستوں کے لیے 24 پارٹیاں اور 151 آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔  صدارتی انتخاب میں موجودہ صدر رجب طیب اردگان کا مقابلہ حزب اختلاف کے رہنما کمال قلیچ‌ داراوغلو سے ہے۔

ترکی کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت رپبلکن پیپلز پارٹی (جمہوریت خلق پارٹی) ہے یہ سیکیولر ترک جمہوریہ کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کی طرف سے تشکیل دی گئی یہ جماعت ترک قوم پرستی کے نظریے کی وفادار ہے اور اسے سیاست کے مرکز میں بائیں بازو کی جماعت سمجھا جاتا ہے۔

رپبلکن پیپلز پارٹی نے نیشن الائنس نامی اتحاد میں خود کو دیگر قوم پرست اور قدامت پسند قوتوں کے ساتھ نتھی کر دیا ہے، جن کے مشترکہ ووٹ اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (جسے آق پارٹی بھی کہا جاتا ہے) کو شکست دینے کے لیے کافی ہو سکتے ہیں۔

کمال قلیچ‌ داراوغلو

حزب اختلاف کے رہنما کمال قلیچ‌ داراوغلو کو ’نیشن الائنس‘ نے اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے، وہ  حزب اختلاف کی 6 جماعتوں کے اتحاد کے متفقہ امیدوار ہیں۔

وہ نرم لہجے میں گفتگو کرنے والے سابق سرکاری افسر ہیں اور اس لحاظ سے وہ ترکی کے طاقتور صدر اردغان سے بالکل مختلف شخصیت ہیں ، قلیچ‌ داراوغلو ایک انتہائی تجربہ کار سیاست دان ہیں، وہ سال 2002 میں رکنِ پارلیمان منتخب ہوئے تھے۔

قلیچ‌ داراوغلو نے 2011 میں شام میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے ترکی میں پناہ لینے والے مہاجرین کی بڑی تعداد کو ملک بدر کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

حزب اختلاف نے ووٹرز کو یقین دلایا ہے کہ وہ اردگان کے دور اقتدار میں تعلقات تیزی سے خراب ہونے کے بعد یورپ کے ساتھ پیدا ہونے والے روابط کو بہتر کرے گی،  ترکی یورپی یونین کے ساتھ الحاق کے مذاکرات کو بحال کرنے کی کوشش کرے گا، جو ملک کی جمہوری گراوٹ کی وجہ سے 2018 سے تعطل کا شکار ہیں ،  روس کے ساتھ ترکی کی اقتصادی اور سیاسی شراکت داری بھی یورپی یونین کے لیے مسئلہ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ترکیہ نے روس پر صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کر دیے

رجب طیب اردگان کی بات کی جائے تو وہ  پہلے ہی وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ زلزلے سے لاکھوں متاثرہ افراد کو متاثرہ ایک سال کے اندر نئے گھر فراہم کریں گے۔

اردگان نے ملک میں افراط زر کو 20 فیصد اور 2024 میں 10 فیصد سے کم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے  اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ وہ شرح سود میں کمی کرتے رہیں گے۔

اردگان نے روسی ثالثی کی کوششوں کے نتیجے میں شام اور ترکی کے درمیان مذاکرات میں بہتری کی وجہ سے شامی مہاجرین کی مزید "رضاکارانہ" واپسی کا بھی وعدہ کیا ہے ۔

 رائےعامہ

رائے عامہ کے سروے بتاتے ہیں کہ ان کے مخالف کمال قلیچ داراوغلو کو تھوڑا سا فائدہ ہے اور وہ 28 مئی کو ہونے والے انتخابات میں ’رن آف‘ سے بچنے کے لیے درکار 50 فیصد ووٹوں کی حد کو توڑنے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔

صدارتی الیکشن میں اگر کوئی امیدوار 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کر سکا تو 28 مئی کو سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو امیدواروں میں ایک اور راؤنڈ ہو گا۔

Advertisement