واشنگٹن: (دنیا نیوز) مودی کے دورہ امریکہ نے نام نہاد بھارتی جمہوریت کا پول کھول دیا، بھارتی وزیراعظم کے دورہ پر امریکی سینیٹرز، کانگریس رہنماؤں، انسانی حقوق، مذہبی اور صحافتی آزادی کی تنظیموں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
گزشتہ روز 75 سے زائد امریکی سینیٹرز اور کانگریس اراکین نے بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھا تھا، کانگریس رکن رشیدہ طلائب اور الہان عمر نے مودی کے کانگریس سے خطاب کو امریکی تاریخ کا شرمناک باب قرار دیتے ہوئے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔
15 جون کو کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنالسٹس (سی پی جے) نے بھی امریکی حکومت سے بھارت میں بگڑتی صحافتی صورتحال پر مذمت کا مطالبہ کیا تھا۔
صدر سی پی جے جوڈی گینز برگ نے اس حوالے سے کہا کہ مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں صحافت اور صحافیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں، تنقید کرنے والے صحافیوں کو غیر قانونی حراست، گھروں کی مسماری اور جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
19 جون کو ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے واشنگٹن میں مودی پر بنی بی بی سی کی ڈاکومنٹری بھی نشر کی تھی، ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے ڈائریکٹر نے بھی صدر بائیڈن کو مودی کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالیوں کا معاملہ اٹھانے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ انڈین امریکن مسلم کونسل اور دیگر تنظیموں نے مودی کے واشنگٹن دورے کے دوران شدید احتجاج کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
مارچ 2023ء میں بھی امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا تھا، گزشتہ سال مودی کے خلاف ڈاکومنٹری نشر کرنے پر بی بی سی انڈیا کے دفاتر پر بھی چار روز تک چھاپے مارے گئے تھے۔
2020ء میں بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شدید حکومتی دباؤ کے مدنظر بھارت میں کام بند کر دیا تھا، 2014ء سے مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق بھارت 140 سے 161ویں نمبر پر گر چکا ہے۔