غزہ : (ویب ڈیسک ) غزہ میں گزشتہ ہفتے سے شروع ہونے والی قیامت کا آج آٹھواں روزہے ، اسرائیلی فوجیوں کی بمباری نے جہاں لاکھوں گھرتباہ کیے وہیں ہرروز فلسطینی شہری خواتین اور معصوم بچوں کی لاشیں اٹھانے پر صدمے سے دوچار ہیں ۔
جمعرات کی ایک صبح ، غزہ میں ان دکھ بھرے مناظر کی عکس بندی میں مصروف رائٹرز کے صحافی محمد سلیم کو ایک پیغام ملتا ہے جس کو سنتے ہی وہ اپنا کیمرہ بند کرتے ہیں اور گھر کی طرف دوڑتے ہیں ۔
صحافی محمد سلیم کی اہلیہ زچگی کی تکلیف میں مبتلا ہیں اور وہ انہیں ہسپتال لے جانے کیلئے گھر کی طرف جارہے ہیں ، اگرچہ وہ اس بات پر پرسکون ہیں کہ ان کی اہلیہ دن میں بچے کو جنم دے گی کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اسرائیلی حملے کم ہوتے ہیں تاہم جنگ کے دوران بچے کی آمد نے انہیں اس کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ضرور کردیا ہے ۔
حماس کے اسرائیل پر مہلک حملے کے بعد اسرائیل کی طرف سے جوابی کارروائی کی کوریج کیلئے فلسطینی انکلیو میں رائٹرز کی ٹیم میں شامل 39 سالہ سلیم کا کہنا ہے کہ رات کے وقت ایمبولینسز کے ساتھ گھومنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس وقت حملے شدید ہوتے ہیں ۔
صحافی حفاظتی جیکٹ پہنے ہوئے اپنی بیوی خولہ کو بکتر بند گاڑی میں ہی غزہ شہر کے الصحابہ ہسپتال پہنچاتے ہیں جہاں رات 12 بجے کے قریب ان کے ہاں ننھے عبداللہ کی پیدائش ہوئی ہے ۔
سلیم کیمرے کی آنکھ سے ہسپتال کے آس پاس کے کئی مناظر محفوظ کرتے ہیں اور پھر اچانک ان کے دل کی کیفیت ایک لمحے میں تبدیل ہوجاتی ہے جب وہ اپنے نوزائیدہ بیٹے کوروتے ہوئے ایک نرس کے ہاتھوں میں دیکھتے ہیں۔
صحافی سلیم جو چار بیٹیوں کے باپ بھی ہیں ، کہتے ہیں کہ " کئی روز سڑکوں اور ہسپتالوں میں رنج و اضطراب کے مناظر کو کیمرے میں قید کرنے کے درمیان مجھے آج زندگی کی سب سے بڑی خوشخبری ملی ہے، یہ بالکل مختلف تجربہ ہے ، یہ ایک ایسی خوشی ہے جو درد کے ساتھ جڑی ہے، شاید یہی زندگی ہے اور زندگی کو ہر حال میں چلناہے " ۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سے جنوبی اسرائیلی قصبوں میں حماس نے الاقصیٰ آپریشن کا آغاز کیا تھا جس میں کم از کم 1500اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے، جواب میں اسرائیل کی جانب سے تاحال شدید بمباری جاری ہے جس میں شہید ہونیوالےفلسطینیوں کی تعداد 2ہزار تک پہنچ گئی ہے جس میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ۔