تل ابیب: (دنیا نیوز) اربوں ڈالر کے جنگی ہتھیار اور جدید آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا استعمال کرنے کے باوجود اسرائیل اپنے یرغمال شہریوں کا کھوج لگانے میں بری طرح ناکام ثابت ہو گیا۔
غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق دنیا کی جدید عسکری قوت ہونے کا دعویٰ کرنے والے اسرائیل کا اربوں ڈالرز کے ہتھیار اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال کے باوجود اپنے یرغمال شہریوں کو بازیاب کرانے میں ناکامی پر اس کی جنگی مہارت کا پول کھل گیا۔
اسرائیل کے ایک میگزین نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی فوج نے مقبوضہ فلسطینی علاقے غزہ میں حماس کے جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کیلئے جدید آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا استعمال کیا، حملوں کیلئے استعمال ہونے والے آرٹیفیشل انٹیلی جنس سسٹم کو لیوینڈر کا نام دیا گیا، جدید سسٹم کو اسرائیلی فوج کے 82 سو یونٹ نے تیار کیا۔
رپورٹ کے مطابق غزہ میں لیوینڈر سسٹم کے ذریعے فلسطین کی مزاحمت تنظیم حماس کے 37 ہزار اہداف کو نشانہ بنایا گیا، حملوں کیلئے شناخت کیے گئے اہداف کی درستی کی شرح 90 فیصد رہی، اسرائیل نے یہ جدید آرٹیفیشل انٹیلی جنس سسٹم غزہ میں اپنے یرغمال شہریوں کی تلاش کیلئے بھی استعمال کیا لیکن اسے بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
واضح ہے کہ 7 اکتوبر کے حملے کے بعد سے اسرائیلی فوج کو غزہ میں غیر معمولی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، حماس کیساتھ جھڑپوں کے دوران زخمی ہونے والے 6 ہزار 800 کے قریب اسرائیلی فوجی زیر علاج ہیں جبکہ 600 سے زائد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جن اسرائیلی فوجیوں کو زیر علاج رکھا گیا ہے ان میں 71 فیصد ریزرو فوجی ہیں جبکہ 351 خواتین فوجی بھی شامل ہیں، ہسپتالوں میں زیر علاج میں سے 9 فیصد خطرے سے باہر ہیں اور 6 فیصد ایسے زخمی ہیں جن کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی میں لڑائیوں کے نتیجے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی صحیح تعداد شائع نہیں کرتی تاہم مارچ کے اوائل میں اسرائیل کے میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ حماس کیساتھ لڑائی میں غاصب فوج کی ہلاکتوں کی بڑی تعداد ایک بریگیڈ کے برابر ہے۔