بھارت کے شمال مشرقی بارڈر پر جنگی حالات، میانمار کی سرحد 'نیا کشمیر'؟

Published On 09 June,2025 10:31 am

نئی دہلی، گواہاتی (ویب ڈیسک) بھارت اور میانمار کے درمیان 1643 کلومیٹر طویل اور غیر محفوظ سرحد ایک بار پھر سنگین جنگی کشیدگی کی لپیٹ میں ہے محض تین ہفتوں میں تیسرے بڑے حملے پر بھی بھارتی فوج کی خاموشی نے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔

5 جون کو اروناچل پردیش کے ضلع لانگڈنگ میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جنگجو بھاری اسلحے سے لیس تھے اور میانمار کی حدود میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

6 جون کو کیے گئے سرچ آپریشن میں 2 شدت پسند مارے گئے جن کا تعلق کالعدم تنظیم این ایس سی این (کے وائی اے) سے بتایا گیا جو سیزفائر معاہدے کا حصہ نہیں اور بھارت پر حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔

حیرت انگیز طور پر بھارتی فوج نے آسام رائفلز کے نقصانات کی کوئی تصدیق نہیں کی جبکہ مقامی میڈیا بھی مکمل خاموش ہے، مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت جان بوجھ کر معلومات چھپا رہا ہے تاکہ بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ کو نقصان سے بچا سکے۔

جون 2015 میں بھی منی پور میں بھارتی فوج کے قافلے پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا تھا جس میں 18 فوجی ہلاک ہوئے تھے، بھارت نے بعد ازاں میانمار کے اندر گھس کر عسکری کارروائی کی جسے "سرجیکل اسٹرائیک" قرار دیا گیا۔

ستمبر 2024 میں بھارتی کابینہ کی سکیورٹی کمیٹی نے 31000 کروڑ روپے کی لاگت سے سرحدی علاقوں کو باڑ لگا کر محفوظ بنانے اور گشت کے لیے سڑکیں بنانے کی منظوری دی دشوار گزار پہاڑی علاقے، مقامی آبادی کی مزاحمت اور میانمار سے سرگرم گروہوں کے حملے نے اس منصوبے کو کاغذی حد تک محدود کر دیا۔

حالیہ حملوں میں ابھرنے والا سب سے نمایاں گروہ نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالِم کے وائی اے ہے جو سیزفائر سے باہر ہے اور میانمار کے اندر چھپ کر بھارت پر حملے کر رہا ہے، بھارتی فوج پر الزام ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے معصوم شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے جس سے علاقے میں نفرت اور بغاوت بڑھ رہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارتی حکومت اور فوج نے میانمار بارڈر پر شفافیت، سنجیدہ حکمت عملی اور مقامی عوام کی شمولیت کو ترجیح نہ دی تو یہ علاقہ "نئے کشمیر" میں تبدیل ہو سکتا ہے، یہاں جنگلوں میں چھپے چالاک دشمن، کمزور بنیادی ڈھانچے اور سیاسی غفلت نے بھارت کو ایک نئی، خفیہ اور ناکام جنگ میں جھونک دیا ہے۔