دہلی، واشنگٹن: (دنیا نیوز) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ اقتدار میں بھارت اور امریکا کے تعلقات بدترین سطح پر پہنچ گئے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی سردمہری نے مودی حکومت کو نہ صرف سفارتی بلکہ شدید معاشی مشکلات سے بھی دوچار کر دیا۔
بین الاقوامی جریدے فنانشل ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت اور امریکا کے خراب تعلقات کا براہِ راست اثر بھارت کے طاقتور ترین ارب پتیوں پر پڑ رہا ہے، مودی حکومت کی ہندوتوا پرور پالیسیوں اور دوغلے پن پر مبنی خارجہ حکمتِ عملی نے واشنگٹن کے ساتھ اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق بھارتی ارب پتیوں نے لاکھوں ڈالر لابنگ فرموں پر خرچ کیے تاہم اس کے باوجود امریکا کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات قائم کرنے میں ناکام رہے۔
رپورٹ میں گوتم اڈانی کے خلاف امریکی قانونی مقدمات کے برقرار رہنے کو اس بات کا ثبوت قرار دیا گیا ہے کہ ذاتی روابط اور لابنگ بھی امریکی قانونی ترجیحات پر اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔
رپورٹ کے مطابق معرکۂ حق میں ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارت اب امریکا کا ایسا اتحادی نہیں رہا جس پر خطے کے معاملات سنبھالنے کے لیے مکمل بھروسہ کیا جا سکے، ٹیرف تنازع کے تناظر میں مودی اور ٹرمپ کے درمیان رابطہ نہ ہونے کے برابر رہا جس نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق حالات کو بھارت کے لیے مزید تلخ بناتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ قربت میں اضافہ کیا ہے جس سے خطے میں بھارت کی سفارتی پوزیشن مزید کمزور ہوئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب بھارت کو امریکا سے اختلاف کی صورت میں سخت معاشی اور قانونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا، روسی تیل کی درآمد پر امریکی ناراضی اور بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف اس بات کی واضح علامت ہیں کہ امریکا اب بھارت کی نام نہاد اسٹریٹجک خودمختاری کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ماہرین کے مطابق مکیش امبانی جیسے بڑے کاروباری گروپس نے روسی تیل کی ریفائننگ کے ذریعے اربوں ڈالر منافع کمایا جو امریکا کے لیے تشویش کا باعث بنا اگرچہ امریکا بھارت کو چین کے مقابل ایک اہم فریق سمجھتا رہا ہے تاہم بھارت کا حالیہ رویہ واشنگٹن کے لیے قابلِ تشویش قرار دیا جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ بھارت–پاکستان کشیدگی اور خطے میں بڑھتے تصادم کے خدشات نے بھی امریکا کے بھارت سے متعلق شکوک و شبہات کو مزید گہرا کر دیا ہے جس کے اثرات آنے والے دنوں میں بھارت کی معیشت اور خارجہ پالیسی پر نمایاں طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔



