لاہور(روزنامہ دنیا )کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور بیرونی ادائیگیوں کے باعث امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ شدید دباؤ کا شکار ہے ،ایک بار پھر آئی ایم ایف کی جانب سے سٹیٹ بینک پر روپے کی قدر کم کرنے کا مطالبہ سامنے آیا جس کے بعد ڈالر 116 روپے تک پہنچ گیا ،دسمبر2017 میں بھی ڈالر کی قیمت میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا تھا اور قیمت 107 سے بڑھ کر 112 روپے ہو گئی تھی، اس وقت بھی آئی ایم ایف کی جانب سے سٹیٹ بینک پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو پانچ سے دس فیصد تک کم کرنے کی بات کی گئی تھی،
آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 12.6ارب ڈالر ہیں جن سے صرف تین ماہ کی درآمدات کی ادائیگیاں ہی ممکن ہو سکتی ہیں،حکومتی ذرائع کے مطابق روپے کی قیمت میں کمی سوچی سمجھی پالیسی کے تحت کی گئی ہے کیونکہ دسمبر 2017 میں پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں تقریباً دس فیصد اوور ویلیو تھا جس سے برآمدات کم ہو رہی تھیں اور درآمدات میں اضافہ ہو رہا تھا اورکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ رہا تھا۔ چنانچہ منصوبہ بندی کے تحت روپے کی قدر کو پانچ فیصد کم کیا گیا ،
اس کے مثبت اثرات سامنے آئے اور جولائی سے فروری تک مہنگائی کی شرح صرف 3.8فیصد رہی جس کا مطلب ہے کہ اکانومی میں ابھی اتنی سکت ہے کہ روپے کی قدر میں ایڈجسٹمنٹ کو جذب کر سکے ۔موجودہ صورتحال میں بھی حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت اگر 115روپے رہتی ہے تو اس سے ملکی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا کیونکہ ملکی برآمدات کے عوض ایکسچینج ریٹ سے ایکسپورٹرز برآمدات بڑھانے میں دلچسپی لیں گے ۔اسی طرح سے امپورٹ ڈیوٹی کی مد میں بھی اضافہ ہوگا اور بجٹ خسارہ بھی کم ہو جائے گا۔ اس لئے حکومت روپے کی موجودہ سطح سے بہت مطمئن ہے اور اسے مستقبل قریب میں اسی سطح پر رکھا جائے گا۔