ستمبر، اکتوبر، نومبر

Published On 28 August,2025 09:38 am

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) گزشتہ چند برسوں سے ستمبر، اکتوبر اور نومبر پاکستان کی سیاست میں اہمیت اور دلچسپی اختیار کر چکے ہیں، دیکھا گیا ہے کہ اگست کے بعد پاکستان کی سیاست میں ہلچل شروع ہو جاتی ہے، جس کے بہت سے محرکات ہیں۔

2022ء کے آخری تین ماہ میں پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت عروج پر تھا، نومبر 2022ء میں پاکستان تحریک انصاف کسی مبینہ اشارے پر سڑکوں پر آ کر بیٹھ گئی، 29 نومبر 2022 ء کو نئے آرمی چیف کا تقرر ہوا، اس سے اگلے برس یعنی 2023ء کے آخری مہینوں میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نئے چیف جسٹس آف پاکستان بنے جن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے نئے انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم دیا اور 8 فروری 2024ء کے انتخابات کی تاریخ آئی۔

2023ء کے آخر میں ہی ملک کی سب سے مقبول جماعت پاکستان تحریک انصاف سے بلے کا نشان چھین کر اسے انتخابی دوڑ سے باہر کرنے کا عمل شروع ہوا، اس سے اگلے برس، 2024ء کے آخر میں چھبیسویں آئینی ترمیم نے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی، اس ترمیم نے ملک میں اعلیٰ عدالتی نظام کا سٹرکچر ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ، جس کے بعد ملک میں جوڈیشل ایکٹوازم کو لگام ڈالی گئی۔

نومبر 2024ء میں ہی سروسز چیفس کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کی گئی، نومبر 2024ء میں پاکستان تحریک انصاف سڑکوں پر نکل آئی اور پھر 26 نومبر ہوگیا، 26 نومبر 2024ء کو ہونے والے احتجاج کے دوران اسلام آباد میں شورش پید ا کرنے کی کوشش کی گئی اور آج بھی پاکستان تحریک انصاف 26 نومبر کے احتجاج کے کیسز بھگت رہی ہے۔

اب 2025ء کا اگست ختم ہونے کو ہے، ایسے میں شہرِ اقتدار ایک مرتبہ پھر قیاس آرائیوں، چہ میگوئیوں، تبصروں اور تجزیوں کا مرکز بنا ہوا ہے، اس مرتبہ ستمبر، اکتوبر اور نومبر کئی حوالوں سے دلچسپی اختیار کر چکے ہیں، پاکستان تحریک انصاف اپنی کمزور ترین حالت کے باوجود سیاسی ماحول گرمانے کیلئے پر تول رہی ہے مگر اس عرصے کو اس لئے بھی اہم سمجھا جا رہا ہے کہ ایک تو آنے والے چند ہفتوں میں اسلام آباد میں اہم تقرریوں سے متعلق فیصلے ہونے ہیں وہیں کچھ حلقوں کی جانب سے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت سے متعلق معاملے پر پراپیگنڈا کرنے کی کوشش بھی شروع کی گئی ہے۔

ان سیاسی حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا اور پبلک ڈومین میں ایسے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کا جواب آج اس تحریر میں سامنے آئے گا، اگرچہ چار نومبر 2024ء کو مسلح افواج کے سربراہان کی مدتِ ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی تھی مگر ان حلقوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی تقرری کا نوٹیفکیشن چونکہ 29 نومبر 2022 ء کو تین سال کیلئے ہوا تھا اس لیے شاید ابھی نیا نوٹیفیکیشن جاری ہونا ہے۔

یوں ان سیاسی حلقوں کی جانب سے قومی سلامتی کے اہم ترین معاملے کو سیاست زدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاہم حکومت کے ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ مسلح افواج کے سربراہان کی پانچ سالہ مدت طے شدہ ہے اور اس حوالے سے کوئی قانونی اقدام درکار نہیں، حکام کا کہنا ہے کہ چار نومبر 2024ء کو ہونے والی قانون سازی کے بعد تینوں چیفس اپنی تعیناتی کے بعد پانچ سال پورے کریں گے، یہ ترمیم حکومت کی منظوری سے ہی پارلیمان کے ذریعے ہوئی تھی، اس میں کوئی ابہام نہیں۔

حکام نے بتایا ہے کہ ایئر چیف ظہیر احمد بابر سدھو، جن کی تقرری 19 مارچ 2021ء کو ہوئی تھی ،اسی قانون کے تحت اپنی خدمات کا چوتھا سال جاری رکھے ہوئے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ مارچ 2026ء میں اپنی موجودہ مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بھی وہ اپنی خدمات جاری رکھیں گے کیونکہ معرکہ حق میں شاندار کامیابی کے بعد حکومت نے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی خدمات جاری رکھنے کا اعلان 20 مئی 2025ء کو کیا تھا۔

اسی طرح چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی تقرری چونکہ 29 نومبر 2022ء کو ہوئی تھی یہ پانچ سالہ مدت 29 نومبر 2027ء کو مکمل ہوگی، پارلیمان یہ اختیار حکومت کو دے چکی ہے کہ وہ سروسز چیفس کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی خدمات کو جاری رکھنے کا فیصلہ کر سکتی ہے جس میں عمر کی کوئی قدغن نہیں۔

پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء میں ہونے والی ترمیم میں کہا گیا کہ چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت پانچ سال ہوگی اور جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس کی حد کا اطلاق آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن پر نہیں ہوگا، اسی طرح پاکستان نیول آرڈیننس 1961ء میں کہا گیا ہے کہ نیول چیف کی مدت ملازمت پانچ سال ہوگی اور ایڈمرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر، سروس کی حد کا اطلاق نیول چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا توسیع پر نہیں ہوگا، پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953ء میں ہونے والی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ایئر چیف کی مدت ملازمت پانچ سال ہوگی اور ایئر چیف مارشل کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس کی حد کا اطلاق ایئر چیف کی تعیناتی ، دوبارہ تعیناتی یا توسیع پر نہیں ہوگا۔

ان تینوں قوانین میں ہونے والی ترمیم کے بعد صورتحال واضح ہو چکی ہے کہ ملک میں پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا، اسی تسلسل کی پہلی کامیابی ظہیر احمد بابر سدھو کی صورت میں ملی جب مئی 2025ء کے معرکے میں پاکستان نے اپنے سب سے بڑے دشمن کو تاریخی شکست دی، اس کے علاوہ دیگر کچھ تقریاں ضرور ہونی ہیں جو معمول کے طریقہ کار کے مطابق ہوں گی اور اس میں کسی ہلچل کی نہ تو گنجائش ہے نہ ہی امکان۔

جہاں تک سیاسی ماحول کا تعلق ہے تو ایک مرتبہ پھر ستمبر، اکتوبر اور نومبر میں بڑی آئینی ترمیم کی باز گشت سنائی دے رہی ہے، ستائیسویں آئینی ترمیم چھبیسویں ترمیم سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس میں بڑے آئینی سٹرکچرز تبدیل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، نئے صوبوں کے قیام سے متعلق بھی سنجیدہ غور و خوض شروع ہو چکا ہے، اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو دیئے گئے اختیارات سے متعلق اہم تبدیلیوں پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ گورننس کے سٹرکچر کو بہتر بنایا جا سکے، این ایف سی کی تشکیلِ نو کیلئے کمیٹی کا قیام عمل میں آچکا ہے جو محاصل میں صوبوں کے شیئر کے کوٹے کا جائزہ لینے جا رہی ہے۔

دوسری جانب بانی پی ٹی آئی اپنی جماعت کو ضمنی انتخابات نہ لڑنے اور پارلیمان کی کمیٹیوں سے مستعفی ہونے کا حکم دے چکے ہیں، 9 مئی سے متعلق عدالتی فیصلے پاکستان تحریک انصاف کی لیڈر شپ کیلئے ڈراؤنا خواب بن چکے ہیں اور پی ٹی آئی کی نشستیں خالی ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

آنے والے دنوں میں مزید اہم عدالتی فیصلے متوقع ہیں، قومی اسمبلی میں نئے اپوزیشن لیڈر کیلئے محمود خان اچکزئی اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کیلئے علامہ راجہ ناصر عباس کو نامزد کیا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر ستمبر، اکتوبر اور نومبر سیاسی طور پر گرم دکھائی دے رہے ہیں۔