لاہور: (روزنامہ دنیا) پانی کی کمی سے ملک ریگستان بن رہا ہے، زرعی لحاظ سے اہم صوبوں پنجاب اور سندھ نے ابھی تک کوئی واٹر پالیسی نہیں بنائی۔
پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ پانی کی کمی سے ملک ریگستان بن رہا ہے، زرعی لحاظ سے اہم صوبوں پنجاب اور سندھ نے ابھی تک کوئی واٹر پالیسی نہیں بنائی۔ پانی کی کمی پر ملک میں شور مچا ہوا ہے مگر واٹر مینجمنٹ کے ذریعے پانی بچانے کا خیال کسی کو نہیں آتا۔ گزشتہ روز ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے ایک بیان میں کہا کہ 1951 میں فی کس پانی کی دستیابی سوا 5 ہزار مکعب میٹر تھی جو 2016 میں 1 ہزار مکعب میٹر تک کم ہو گئی اور 2025 میں یہ 860 مکعب میٹر رہ جائے گی، جو پاکستان کیلئے ایک قیامت کا سماں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ میں سالانہ 134.8 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے جس میں سے 60 ارب ڈالر مالیت کا پانی ضائع کر دیا جاتا ہے۔ ملک میں پانی کی رسد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا مگر طلب مسلسل بڑھ رہی ہے جسکی وجہ سے زیر زمین پانی کے ذخائر سے سالانہ پچاس ملین ایکڑ فٹ پانی نکالا جا رہا ہے جس سے یہ ذریعہ بھی ختم ہو رہا ہے۔
ملک میں دستیاب 95 فیصد پانی زرعی مقاصد کیلئے استعمال ہو رہا ہے جسکی بڑی تعداد ضائع ہو جاتی ہے، سب سے زیادہ پانی گنے اور چاول کی فصل میں استعمال ہوتا ہے جس کا زیر کاشت رقبہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ایک کلو چینی کے حصول میں 15 سو سے 3 ہزار لٹر پانی لگتا ہے جبکہ پاکستان میں چاول کیلئے دیگر ایشیائی ممالک سے دگنے سے زیادہ پانی استعمال کیا جاتا ہے اس لیے ان فصلوں کی کاشت کی حوصلہ شکنی اور کاشتکاروں کو دوسری فصلوں کی جانب راغب کرنے کی ضرورت ہے۔