اسلام آباد: (روزنامہ دنیا) پاکستان میں با اثر طبقات کو حاصل وفاقی ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی چھوٹ کا حجم 970 ارب روپے سے بڑھ کر 1800 ارب روپے سالانہ سے تجاوز کرگیا ہے، آئندہ وفاقی بجٹ 2020-21 میں اس چھوٹ کو ختم کرنے کیلئے قانون سازی کا عمل شروع کیا جائے گا جسے فنانس بل کے ذریعے پارلیمنٹ سے پاس کروایا جائے گا اور یکم جولائی 2020 سے لاگو کر دیا جائے گا۔
عالمی بینک نے ٹیکس اصلاحات کے اہم ترین مرحلے پر عملدرآمد سے قبل ٹیکس چھوٹ کے متعلق 100 صفحات پر مشتمل رپورٹ ایف بی آر کے توسط سے حکومت پاکستان کو پیش کر دی ہے۔ حکام نے روزنامہ دنیا کو بتایا عالمی بینک نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں مکمل نشاندہی کر دی ہے کہ کن شعبوں پر ٹیکسوں کا بوجھ منتقل کیا جائے اور کن شعبوں پر بوجھ کم کیا جائے تاہم فیصلے کا اختیار حکومت پاکستان پر چھوڑ دیا ہے۔
حکام کے مطابق مالی سال 2020-21 کے وفاقی بجٹ میں ٹیکسوں کا بوجھ معیشت کے 4 اہم شعبوں صنعت، زراعت، ہول سیل و ٹریڈ اور خدمات کے شعبے پر ازسرنو منتقل کر کے منصفانہ بنایا جائے گا۔ اس وقت مجموعی معیشت میں صنعت اور پیداوار کا حصہ 25 فیصد ہے اور ملک کا 60 فیصد ٹیکس صرف یہ ایک شعبہ دے رہا ہے۔ ہول سیل اور ٹریڈ سیکٹر کا حصہ صرف 2 فیصد ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ زرعی شعبہ بھی مجموعی ٹیکسوں کا صرف 3 فیصد ادا کرتا ہے۔ خدمات کے شعبے میں شامل آرگنائزڈ سیکٹر جیسے بینک، مالیاتی اور انشورنس کے ادارے ٹیکس ادا کر رہے ہیں لیکن پروفیشنل سروسز سے ٹیکسوں کی ادائیگی نہیں ہو پا رہی۔
حکام کا کہنا ہے کہ جلد ہی انکم ٹیکس آرڈیننس 2001، سیلز ٹیکس ایکٹ 1990، فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005 اور کسٹم ایکٹ 1965 میں ضروری ترامیم کی تیاری جلد ہی کابینہ کی منظوری سے شروع کر دی جائے گی، ان مسودوں پر نجی شعبے سے بھی مشاورت کی جائے گی، ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی چھوٹ کو کم سے کم شرح تک لانے کا ہدف رکھا جائے گا۔ امکان ہے کہ ٹیکسوں کی چھوٹ کو صرف عام آدمی کو خوراک و ادویات کی فراہمی، صنعتوں کی ترقی اور قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کی امداد تک محدود رکھا جائے گا۔