2019ء میں ڈالر کے مقابلے روپیہ دباؤ کا شکار رہا، روپے کی قدر میں ساڑھے گیارہ فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ جون میں ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح 164 روپے سے بھی تجاوز کرگیا۔
روپے کی قدر میں استحکام لانے کے لئے موجودہ حکومت نے ایک طرف تو تمام پُر تعیش اشیاء پر عائد ڈیوٹیز میں اضافہ کیا جبکہ دوسری طرف دوست ممالک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے رقم لے کر گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیا۔
حکومتی اقدامات اور سٹیٹ بینک کی ایکسیچینج پالیسی کی بدولت سال کے اختتام تک ڈالر اپنی بلند ترین سطح سے 9 روپے کمی کے بعد 155 روپے کے گرد ٹریڈ ہونے لگا۔
دوسری طرف 2019ء کے دوران سٹاک مارکیٹ بدترین سے بہترین مارکیٹوں میں شمار ہونے لگی۔
دنیا نیوز کے مطابق ایک سال کے دوران پاکستان سٹاک مارکیٹ میں زبردست اتار چڑھاو ریکارڈ کیا گیا۔ ایک وقت میں مارکیٹ کا شمار دنیا کی بدترین مارکیٹوں میں ہونے لگا تو امسال پاکستان سٹاک ایکسچینج بہترین مارکیٹوں میں شمار ہونے لگی۔
سالانہ بنیاد پر سٹاک مارکیٹ کا 100 انڈیکس 12 فیصد بڑھا اور مارکیٹ میں 4 ہزار پوائنٹس سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
2019 میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے لئے 6 ارب ڈالر کی منظوری دی جس سے زرمبادلہ اور معیشت کو سہارا ملا، آئی ایم ایف کے بعد ورلڈ بینک اور دیگر اداروں کا اعتماد بھی بڑھا، قرض کی منظوری سے کرنٹ اکاونٹ اکتوبر میں سرپلس ہوا۔