اسلام آباد: (ویب ڈیسک) وفاقی وزیر خزانہ و محصولات شوکت ترین نے کہا ہے کہ حکومت جامع اور پائیدار اقتصادی بڑھوتری کے سفر پر گامزن ہے، قومی معیشت کے اہم اشاریے بہتری کی عکاسی کر رہے ہیں۔ چارٹر آف اکانومی ہونا چاہئے، اگر اپوزیشن جماعتیں اس حوالہ سے آگے بڑھتی ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ پاکستان کا آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق سیّد فخر امام، وزیر صنعت و پیداوار خسرو بختیار، وزیراعظم کے مشیر برائے سرمایہ کاری و تجارت عبدالرزاق دائود، وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین اور اقتصادی مشاورتی کونسل کے دیگر ارکان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ 1972ء کے بعد پہلی مرتبہ منظم انداز میں قومی معیشت کے اہم شعبوں کے حوالہ سے منظم منصوبہ بندی کی گئی ہے، اقتصادی مشاورتی کونسل کے مختلف گروپوں کی جانب سے پیش کردہ سفارشات اور پالیسیوں پر عملدرآمد کیلئے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک ڈویلپمنٹ پائیڈ سے ماہرین لئے جائیں گے، یہ ماہرین مختلف وزارتوں کے ساتھ تعاون کریں گے اور ان گروپوں کے مقرر کردہ اہداف پر پیشرفت کے بارے میں وزیراعظم کو ماہانہ پریزنٹیشن دی جائے گی، منصوبہ بندی کے بغیر پائیدار ترقی اور بڑھوتری کے اہداف حاصل نہیں کئے جا سکتے، 1972ء کے بعد پہلی مرتبہ ملکی تاریخ میں مختلف شعبوں میں بڑھوتری کیلئے جامع منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی اقتصادی مشاورت کونسل میں نجی شعبہ کے سٹیک ہولڈرز کو شامل کیا گیا ہے، ہم نے 14 ترجیحی شعبوں کی نشاندہی کی اور ان کیلئے مختصر، درمیانے اور طویل المیعاد پالیسیاں اور اہداف کا تعین کیا۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی مشاورتی کونسل کے مختلف گروپوں کی جانب سے پیش کردہ سفارشات اور پالیسیوں پر عملدرآمد کیلئے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک ڈویلپمنٹ(پائیڈ) سے ماہرین لئے جائیں گے، یہ ماہرین مختلف وزارتوں کے ساتھ تعاون کریں گے اور ان گروپوں کے مقرر کردہ اہداف پر پیشرفت کے بارے میں وزیراعظم کو ماہانہ پریزنٹیشن دی جائے گی، اس حوالہ سے منظم طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جامع اور پائیدار اقتصادی بڑھوتری کے حصول کیلئے سفر کا آغاز کر دیا گیا ہے، ستمبر کے مہینے سے کارکردگی کا جائزہ لینے کا عمل شروع ہو گا، یہ ایک اہم پیشرفت ہے کیونکہ منصوبہ بندی کے بغیر ہم جامع اور پائیدار بڑھوتری حاصل نہیں کر سکتے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے نتیجہ میں معیشت کے تمام اشاریے درست میں گامزن ہیں، اوورسیز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے ملک میں کاروبار کیلئے اعتماد کی رینکنگ بڑھائی ہے، پاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 16 سے 17 فیصد تک بڑھی ہے، اسی طرح موبائل فونز کی برآمدات درآمدات سے بڑھ گئی ہیں۔
شوکت ترین نے کہا کہ چارٹر آف اکانومی ہونا چاہئے، اگر اپوزیشن جماعتیں اس حوالہ سے آگے بڑھتی ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ پاکستان کا آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، گذشتہ روز میری آئی ایم ایف کے حکام سے اچھی بات چیت ہوئی ہے، ستمبر کے آخر میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان باضابطہ بات چیت شروع ہو گی، اکتوبر میں واشنگٹن کے دورہ کے دوران آئی ایم ایف کے حکام سے مزید تفصیلی بات چیت ہو گی۔
اس موقع پر وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ وتحقیق سید فخر امام نے بتایا کہ زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن گزشتہ 20 سال میں زراعت کے شعبہ پر توجہ نہیں دی گئی۔1960 سے 2001 تک زرعی ترقی 4 فیصد تھی لیکن 20 سال میں یہ کم ہوکر 3 فیصد پر آگئی۔ کاشتکار عمران خان کی اولین ترجیح ہیں، کاشتکار کا معیارزندگی بہتر معاوضہ سے ہی بلند ہوسکتا ہے،ملک میں 38 فیصد زرعی رقبہ پر گندم کاشت ہوتی ہے،اس کی امدادی قیمت 14 سو سے بڑھا کر 18 سو کرنے سے اس کی پیدوار میں 22 لاکھ ٹن ریکارڈ اضافہ ہوا۔اسی وجہ سے اس سال کوئی بحران پیدا نہیں ہوا۔دھان کی پیداوار میں 10لاکھ ٹن اضافہ ہواہے۔ مکئی کی پیداوار میں 7 لاکھ ٹن اضافہ ہوا،کپاس کی پیداوار کا دس لاکھ ٹن بیلزکا ہدف تھا، توقع ہے کہ اس کے قریب قریب پیداوار ہوگی،موسم کی وجہ سے گزشتہ سال سندھ میں ہدف سے 50 فیصد کم پیداوار ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ کامیاب جوان پروگرام کے تحت کاشتکاروں کو دیئے جانے والے قرضوں سے زرعی پیداوار میں بہتری آئے گی اس کے علاوہ تحقیق اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر خصوصی توجہ مرکوز کر رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ ملک میں آم اور کنو کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہم لائیو سٹاک اورفشریز پر اپ گریڈ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق دائود نے کہاکہ موجودہ حکومت صحیح معنوں میں ملکی برآمدات میں اضافہ پر توجہ دے رہی ہے۔ رواں مالی سال کے لئے برآمدات کا ہدف 38.7 ارب مقرر کیاگیا ہے ،اس میں مختلف مصنوعات کی برآمدات کا ہدف 31.2 ارب ڈالراور خدمات کی برآمدات کاہدف 7.5 ارب ڈالر ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ درآمدات میں کمی ہو اور برآمدات بڑھیں اور اس وقت برآمدات کے حوالے سے صورتحال انتہائی حوصلہ افزا ہے اور برآمدات کے اہداف ہم حاصل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ درآمدات اس لئے بڑھتی ہیں کہ ملک کے اندر مصنوعات تیارکرنے کی بجائے ہم دوسرے ممالک سے درآمد کرتے ہیں ۔ پہلی مرتبہ اب ملک میں مختلف مصنوعات کی تیاری شروع ہوئی ہے اور اس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے ۔ موبائل فونز ہم پہلے درآمد کرتے تھے ، اب یہ درآمد نہیں کئے جا رہے، اس کے علاوہ ٹیرف کو بھی بہتر بنایا جا رہا ہے اور خام مال پہلے 50 فیصد ڈیوٹی فری منگوایا جا رہا تھا اب وزیرخزانہ سے اس سلسلہ میں بات ہوئی ہے کہ آئندہ سال سے اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ پائیدار ترقی کے اہداف پر ہماری توجہ مرکوز ہے، اس کی وجہ سے آمدن میں اضافہ ہوتا ہے تو مصنوعات اور خدمات کی طلب بھی بڑھ جاتی ہے تاہم ملکی پیداوار یہ طلب پوری نہیں کر سکتی جس کی وجہ سے درآمدات پر انحصار کرنا پڑتا ہے اس سے ادائیگیوں کا توازن خراب ہوتا ہے اور پھر عالمی مالیاتی اداروں سمیت دیگر کے پاس جانا پڑتا ہے، ہماری کوشش ہے کہ ہم پائیدار اور جامع ترقی کی جانب آئیں اس کیلئے طویل اور قلیل المدتی حکمت عملی مرتب کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عام شہری کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانا اور انہیں زیادہ سے زیادہ اختیارات منتقل کرنے ہیں ہم نے اس عمل کو مکمل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی کے لحاظ سے سرمایہ کاری کی شرح 15 فیصد ہے اس کو بڑھا کر 20 فیصد کرنا ہے۔ عامل کاشتکار کی پیداوار نہیں بڑھے گی تو ہمیں درآمدات کرنا ہوں گی، ملک میں آئی ٹی کے شعبہ میں ترقی ہوئی ہے تاہم ہماری برآمدات 2 ارب ڈالر ہیں جبکہ پڑوسی ملک بھارت کی برآمدات 150 سے لے کر 200 ارب ڈالر تک ہیں، ہم بڑے کاروباری طبقہ کیلئے آسانیاں پیدا کرنی ہیں، ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہے، ہمارے اخراجات 20 فیصد جبکہ محصولات 12 فیصد ہیں اس خلیج کو کم کرنا ہے، ہمیں ویلیو ایڈڈ برآمدات کی طرف جانا ہے، ترسیلات زر کو بڑھانا ہے۔ ہم نے شرح نمو میں اضافہ کیلئے مکمل حکمت عملی تشکیل دی ہے۔