اسلام آباد: ( دنیا نیوز ) اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود میں 1 فیصد اضافہ کر دیا۔
مرکزی بینک کے اعلامیہ کے مطابق شرح سود اضافے کے بعد 16 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ مانیٹری پالیسی میں شرح سود 15 فیصد پر برقرار رکھی گئی تھی۔
اسٹیٹ بینک اعلامیے کے مطابق فیصلے کا مقصد مالیاتی شعبے کا استحکام بھی ہے، فیصلے کا مقصد اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ بڑھی ہوئی مہنگائی راسخ نہ ہو جائے، مالی استحکام کو درپیش خطرات قابو میں رہیں اور اس طرح زیادہ پائیدار بنیاد پر بلند نمو کی راہ ہموار کی جاسکے، جاری معاشی سست روی کے اس دور میں مہنگائی کو مسلسل عالمی اور ملکی رسدی دھچکوں کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ تحریک مل رہی ہے جس سے لاگت میں اضافہ ہورہا ہے پھر اس کے اثرات وسیع تر نرخوں اور اجرتوں پر پڑرہے ہیں جس کی بنا پر مہنگائی کی توقعات اپنے مقام سے ہٹ سکتی ہیں اور وسط مدتی نمو کو متاثر کرسکتی ہیں، نتیجے کے طور پر لاگتی مہنگائی نظر انداز نہیں کی جاسکتی اور زری پالیسی کے ذریعے ردعمل ضروری ہوجاتا ہے، ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ مہنگائی کو کم کرنے کی مختصر مدتی قیمت اسے راسخ ہونے دینے کی طویل مدتی قیمت سے کم ہے۔
اعلامیہ کے مطابق ساتھ ہی رسدی زنجیر کی رکاوٹیں دور کرنے کے لیے انتظامی اقداما ت کے ذریعے غذائی گرانی کو قابو کرنا اور ضروری درآمدات کرنا بلند ترجیح ہے، پچھلے اجلاس کے بعد ایم پی سی نے تین اہم ملکی پیش رفتیں نوٹ کیں، اول، بجلی کی قیمتوں میں پچھلے مہینے کی انتظامی کمی کے اثرات سامنے آئے تو اکتوبر میں عمومی مہنگائی تیزی سے بڑھ گئی، حالیہ سیلاب سے فصلوں کو ہونے والے نقصانات کے باعث غذائی اشیا کی قیمتوں میں کافی اضافہ ہوا اور قوزی مہنگائی مزید بلند ہوئی ہے۔
دوم، درآمدات میں یکدم کمی کے نتیجے میں ستمبر اور اکتوبر دونوں مہینوں میں جاری کھاتے کے خسارے میں خاطر خواہ اعتدال آیا، اس اعتدال اور اے ڈی بی کی جانب سے تازہ فنڈنگ کے باوجود بیرونی کھاتے کی دشواریاں برقرار ہیں۔
سوم، حکومت کی جانب سے سیلاب کے نقصانات کے جائزے میں مالی سال 23ء میں لگ بھگ 2 فیصد نمو اور جاری کھاتے کا خسارہ جی ڈی پی کے تقریباً 3 فیصد ہونے کی پھر تصدیق کی گئی ہے، جس کے بارے میں گزشتہ زری پالیسی بیان میں بتایا گیا تھا، تاہم اب امکان ہے کہ بلند غذائی قیمتیں اور قوزی گرانی اوسط مہنگائی کو مالی سال 23ء میں بڑھا کر 21-23 فیصد تک لے جائیں گی۔
گزشتہ زری پالیسی اجلاس کے بعد سیلاب اور جاری پالیسی اور انتظامی اقدامات کے باعث عبوری تعطل معاشی سرگرمی کو معتدل کرتا رہا ہے، اکتوبر میں سیمنٹ، پٹرولیم مصنوعات اور گاڑیوں کی فروخت سمیت طلب کے بیشتر اظہاریے سال بسال بنیاد پر دو ہندسی سکڑاؤ کے عکاس تھے، رسد کے لحاظ سے بجلی کی پیداوار میں مسلسل پانچویں مہینے کمی ہوئی اور یہ 5.2 فیصد (سال بسال) تک گر گئی، ستمبر میں ایل ایس ایم کی پیداوار گذشتہ برس کی نسبت کمزور رہی اور صرف برآمدی نوعیت کےشعبوں میں مثبت نمو ہوئی، زراعت کے متعلق تازہ ترین تخمینوں سے سیلاب کے سبب چاول اورکپاس کی فصلوں میں بھاری پیداواری نقصانات کا پتہ چلتا ہے، جو مینوفیکچرنگ اور تعمیرات میں سست نمو سے مل کر اس سال کی نمو پر اثرانداز ہوں گے۔
ستمبر اور اکتوبر دونوں میں جاری کھاتے کے خسارے میں مسلسل اعتدال دیکھا گیا اور یہ بالترتیب 0.3 اور 0.6 ارب ڈالر پر آ گیا۔، بحیثیت مجموعی، مالی سال 23ء کے ابتدائی چار مہینوں میں جاری کھاتے کا خسارہ کم ہو کر 2.8 ارب ڈالر پر آ گیا جو گذشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں تقریباً نصف ہے، اس بہتری میں اہم کردار درآمدات میں وسیع البنیاد کمی نے ادا کیا جو 11.6 فیصد کمی کے ساتھ 20.6 ارب ڈالر پر آ گئیں جبکہ برآمدات 2.6 فیصد اضافے سے 9.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔
دوسری جانب ترسیلات زر 8.6 فیصد کم ہوئیں اور 9.9 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جن سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کی شرح مبادلہ کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق اور امریکی ڈالر کی مضبوطی کی عکاسی ہوتی ہے، فنانسنگ کے لحاظ سے ملک میں بے یقینی کی کیفیت اور سخت عالمی مالی حالات رقوم کی آمد پرمنفی اثرات مرتب کررہے ہیں اور اہم مرکزی بینک مسلسل پالیسی ریٹس میں اضافہ کر رہے ہیں، مالی سال 23ء کے ابتدائی چار مہینوں میں مالی کھاتے میں 1.9 ارب ڈالر کی خالص رقوم کی آمد ہوئی جو گذشتہ برس کی اسی مدت میں 5.7ارب ڈالر تھی، آگے چل کر سیلاب کے بعد کپاس کی بلند درآمدات اور چاول اور ٹیکسٹائل کی برآمدات میں کمی کے اثرات کی تلافی معاشی سست رفتاری اور اجناس کی عالمی قیمتوں میں کمی کے سبب درآمدات میں وسیع البنیاد اعتدال سے ہونی چاہیے۔
نتیجتاً توقع ہے کہ مالی سال 23ء میں دوطرفہ اور کثیر طرفہ ذرائع سے بیرونی رقوم کی متوقع وصولی کے سبب زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج بہتری کے ساتھ جاری کھاتے کا خسارہ معتدل رہے گا، اگر تیل کی عالمی قیمتوں میں حالیہ کمی برقرار رہتی ہے یا اہم مرکزی بینکوں کی جانب سے نرخوں میں اضافے کی رفتار سست ہو جاتی ہے تو اس سے بیرونی کھاتے پر دبائو مزید کم ہو جائے گا، مالی سال 23ء کے لیے تخمین شدہ سکڑائو کے باوجود پہلی سہ ماہی میں مالیاتی نتائج گذشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں بگاڑ کے عکاس ہیں، مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 0.7 فیصد سے بڑھ کر ایک فیصد ہو گیا جبکہ بنیادی فاضل کم ہو کر جی ڈی پی کا 0.2 فیصد ہو گیا، اس کمی کا اہم سبب غیر ٹیکس محاصل میں کمی اور بلند سودی ادائیگیاں تھیں، اس کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کے ٹیکس محصولات میں نمو نصف ہو کر 16.7 فیصد (سال بسال) پر آگئی، سیلاب کے ردعمل میں حکومت نے زرعی شعبے کے لیے ریلیف کے متعدد اقدامات کیے جن میں کاشت کاروں کو مارک اپ پر زراعانت اور زراعانت یافتہ خام مال کی فراہمی شامل ہیں، سیلاب کی وجہ سے سال کے لیے تخمین شدہ جارحانہ مالیاتی یکجائی کا حصول دشوار ہو سکتا ہے لیکن اخراجات اور بیرونی گرانٹس کو دوبارہ مختص کر نے سے اضافی خرچ کی ضروریات پور ی کر کے انحراف کو کم از کم کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے جبکہ رقوم کی منتقلیاں صرف بہت ضرورت مند طبقات تک محدود رہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق زری سختی کی معاونت کے لیے مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھنا ضروری ہے جو مل کر مہنگائی پر قابو پانے اور بیرونی کمزوریوں کو کم کرنے میں مدد دیں گے، معاشی سرگرمیوں میں سُست روی کی مطابقت سے نجی شعبے میں اعتدال آیا اور پہلی سہ ماہی کے دوران صرف 86.2 ارب روپے کا اضافہ ہواجبکہ گذشتہ برس کے اسی عرصے میں 226.6 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا، اس کمی کی بنیادی وجہ شعبہ تھوک کاروبار اور خردہ تجارتی خدمات کو جاری سرمائے کے قرضوں میں بڑی واضح کمی نیز کپاس کی پست ملکی پیداوار کے بعد ٹیکسٹائل شعبے کو صارفی قرضوں میں سست روی آنا ہے، عمومی مہنگائی اکتوبر میں تقریباً ساڑھے تین فیصدی پوائنٹس (سال بسال) بڑھ گئی ، جس کا سبب بجلی کے نرخوں میں ایندھن کی تطبیقی لاگت (فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ) کا معمول پر آنا اور غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہے، توانائی اور غذائی اشیا کی قیمتوں میں بالترتیب 35.2اور 35.7فیصد (سال بسال) اضافہ ہوا، اس دوران دیہی اور شہری علاقوں میں قوزی مہنگائی مزید بالترتیب 18.2 اور 14.9 فیصد سال بسال بڑھ گئی، کیونکہ غذائی اشیا اور توانائی کی بڑھتی ہوئی مہنگائی وسیع تر قیمتوں، اجرتوں اور مہنگائی کی توقعات پر منتج ہوئی، مہنگائی کی رفتار بھی تیزی سے بڑھی، جس میں 4.7 فیصد (ماہ بہ ماہ) اضافہ ہوا۔
ان پیش رفتوں کے نتیجے میں مالی سال 23ءکے لیے مہنگائی کے تخمینے میں اضافہ ہوگیا، اگرچہ مہنگائی کا تسلسل توقع سے زائد رہنے کا امکان ہے، تاہم آخر مالی سال 24ء تک وسط مدتی ہدف کے مطابق مہنگائی 5 تا 7 فیصد کی اوپری سطح کے قریب قریب رہنے کی توقع ہے، جس میں محتاط معاشی پالیسیوں، روپے کی قدر کی منضبط حرکت، اجناس کی عالمی قیمتوں کا معمول پر آنا اور سود مند اساسی اثرات کا کردار ہوگا، زری پالیسی کمیٹی مہنگائی کے وسط مدتی امکانات، مالی استحکام اور نمو پر اثرانداز ہونے والی پیش رفتوں کا بغور جائزہ لیتی رہے گی۔