نارووال: (صبا چوہدری )فاطمہ بی بی نے 2019 میں بینک سے قرضہ لینے کا سوچا انہوں نے یہ فیصلہ تب کیا جب کووڈ کی وجہ سے ان کے شوہر کا سارا کاروبار بند ہو گیا اور ان لوگوں کے پاس اپنا گھر کا کرایہ دینے تک کے پیسے نہیں تھے۔
فاطمہ اپنے تین بچوں اور شوہر کے ساتھ نارووال کے ایک چھوٹے سے گھر میں کرایے کے گھر میں رہتی ہیں، جہاں وہ اپنے گاؤں سے شہر اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لئے آے تھے، فاطمہ کہتی ہیں کہ "جب ہم لوگوں نے بینک سے قرضہ لیا تو ہم نے سوچا تھا کہ کاروبار جلد ہی شروع ہونے کے بعد ہم سارا قرض اتار دیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا"
فاطمہ بتاتی ہیں کہ وہ ایک دن اپنے گھر بیٹھی تھیں کہ ان کے گھر اچانک کچھ لوگ آے اور ان کو قرضے کے پیسے واپس دینے کے لئے تنگ کرنے لگے۔
"ان سے قرضہ ادا کرنے کے لئے مزید وقت مانگا تو اس کے بعد بھی ان لوگوں نے ہمیں مختلف طرح سے ہراساں کرنا شروع کر دیا جس سے ہمیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا"
اسی طرح کینزا بی بی جن کی عمر 35 سال ہے انہوں نے جب اپنا گھر بنانے کا سوچا تو ان کے پاس کچھ پیسے کم پڑگے جس کے بعد انہوں نے بھی بینک سے قرضہ لینے کا سوچا لیکن جلد ہی ان کو اس بات کا احساس ہوا کہ یہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
کینزا بتاتی ہیں کہ جب وہ قرضے کی ادائیگی وقت پر نہ کر سکی تو ان کو بار باربینک سے کالز آنے لگیں اور صرف یہی نہیں کچھ لوگ تو بینک کی طرف سے ان کے گھر تک آنے لگے۔
"میں ان سب چیزوں سے اتنا تنگ آ چکی تھی کہ میں نے کئی بار خودکشی کا بھی سوچا"
لیکن بعد ازاں میں کچھ رشتے داروں سے پیسے لے کر سارا قرضہ اتارا جو اس سے بھی مشکل بات تھی۔
پنجاب صنفی رپورٹ 2021 کے مطابق نارووال میں خواتین کے ٹوٹل ایکٹیو بینک کی تعداد صرف پانچ ہزار ہے جو کہ باقی پنجاب کے سب ڈسٹرکٹ سے انتہائی کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب میں خواتین کی زیادہ بینک اکاؤنٹ کی تعداد لاہور اور راولپنڈی میں ہے، تاہم جن علاقوں میں خواتین کے اکاؤنٹ کی تعداد کم ہے اس کی بڑی وجہ وہاں خواتین کے پاس شناختی کارڈز کم ہونا بھی ہے۔
اسی طرح 2018 سے لے کر 2020 تک خواتین کی قرضہ لینے کی تعداد بھی مردوں کے مقابلے میں انتہائی کم تھی۔
جس میں زرعی ترقی بینک کے ذریعے نارووال میں 2020 میں 1460 خواتین نے قرضہ لیا جو کہ مردوں کے مقابلے میں بہت کم دیکھا گیا کیوں کہ اس قرضے کی شرح تین سالوں میں بھی 0.5 ہی رہی، ان قرض لینے میں اکثر خواتین کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے اور ان لوگوں نے تین سے پانچ لاکھ تک کا قرضہ لیا۔
پرائیویٹ بینک پرائیویٹ کمپنیز کے طور پر دیہاتی علاقوں میں کام کرتے ہیں، جو حکومت سے غریبوں کو قرض دینے کے نام سے پیسے لیتے ہیں مقامی لوگوں کا بتانا ہے قرض لینے کے بعد اگر کوئی وقت پر قرض اتار نہ سکے تو یہ لوگ ان کو بار بار تنگ کرتے ہیں۔
لیکن قانونی طور پر ان کے خلاف کوئی بھی ایکشن نہیں لیتے۔ اور نہ ہی کورٹ میں کوئی بھی مقدمہ نہیں کرواتے کیوں کہ وہاں ان کو فیس بھرنی پڑتی ہے۔
نارووال کے ہی ایک بینک میں کام کرنے والی سدرہ بتاتی ہیں ان کے بینک میں کافی لوگوں کو قرضہ دیا جاتا ہے تاہم ان کے بینک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بینک میں سے کوئی خاتون کسی کے گھر قرضہ واپس لینے گئی ہو۔
"ہاں البتہ وہ ایسے کافی ایجنٹ کو جانتی ہیں جو خواتین کو بار بار تنگ کرتے ہیں اور ان کو قرضے کی واپسی کے لئے بار بار کالز کرتے ہیں جو کہ بینک کی گائیڈ لائنز کے خلاف ہیں کیوں کہ بینک میں لکھوایا جاتا ہے قرض دینے سے پہلے کہ آپ ان لوگوں کو تنگ نہیں کریں گے۔
نارووال ڈسٹرکٹ کورٹ میں کام کرنے والے عرفان کہتے ہیں انہوں نے بہت سی خواتین کے کیسز لڑے ہیں جن پر صرف قرضہ وقت پر نہ دینے پر کیس درج کر دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ "حال ہی میں ایک خاتون جنہوں نے چار لاکھ کا قرضہ لیا تھا، ان کی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کروائی، جس کے بعد پولیس نے آرڈر کیا کہ بینک والے ان کے گھر وصولی کرنے کے لئے نہیں جا سکتے"۔
وہ بتاتے ہیں کہ گاؤں میں اکثر microfinances لوگوں کے فائدہ کے بجائے ان لوگوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے لائے جاتے ہیں۔ گاؤں کی عورتوں کو اس بات کی اگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی ان کو قرضے کی وجہ سے تنگ کرتا ہے تو یہ قانون کے مطابق جرم ہے جس کی سزا بھی موجود ہے۔
لیکن ہمارے ہاں اکثر ایسے پروگرام کے ذریعے سود کھایا جاتا ہے اور خواتین اس کا شکار ہو جاتی ہیں۔"
وہ مزید بتاتے ہیں کہ اگر کوئی بھی ایجنٹ آپکو قرضے کی وجہ سے ہراساں کرتا ہے تو آپ اس کی شکایت بینک میں کر سکتے ہیں اور اگر بینک آپ کی بات نہیں سنتا تو آپ اس کے خلاف کورٹ میں جا سکتے ہیں، جس پر ابھی مزید قانون سازی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پرائیویٹ کمپنیز سود لینے کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرتی ہیں جن کے خلاف ایکشن لینے کی ضرورت ہے، فلاحی ادرے لوگوں کو قرض دیتے ہیں لیکن یہ پرائیویٹ کمپنیز خود ٹیکس نہیں دیتی ہیں، جس کے لئے سخت کارروائی ہونی چاہیے لیکن وہ نہیں ہوتی ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر نارووال خضر حیات کا کہنا ہے یہ ایک سنگین مسلہ ہے، ان لوگوں کا کام” غریب لوگوں کی مدد کرنا ہے،انہوں نے بتایا کہ ایسے لوگوں کے خلاف ایکشن لیا جاۓ گا اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کروائی کی جاۓ گی۔
انہوں نے بتایا ہر شہری اپنی بات کہنے کا حق رکھتا ہے اور قانون کے آگے سب برابر ہیں، اس لئے اگر کوئی غیر قانونی طور پر کسی سے قرض وصول کر رہا ہے تو یہ دوسرے کے انسانی حقوق خلاف ہے، جس کو معاف نہیں کیا جائے گا۔