اسلام آباد: (ذیشان یوسفزئی) آئی پی پیز کی موجیں کم نہ ہو سکیں، مالی سال 23-2022 کے مقابلے میں سال 24-2023 میں 36 آئی پی پیز کے کیپسٹی پیمنٹس میں سو فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ مالی سال میں 36 پلانٹس کو 435 ارب 96 کروڑ روپے کی اضافی ادائیگیوں کا انکشاف ہوا، کول پلانٹس کیپسٹی پیمنٹس لینے والی فہرست میں سب سے پہلے نمبر پر آ گئے۔
دستاویزات کے مطابق 36 پلانٹس کو مجموعی طور پر 923 ارب 81 کروڑ روپے دیئے گئے، حب جنریشن کمپنی کی کیپسٹی پیمنٹس میں ایک سال کے دوران 44 ارب 42 کروڑ روپے اضافہ ہوا جبکہ حب پاور پلانٹس کی پیداوار صفر ہے۔
دستاویزات کے مطابق ساہیوال کول پاور پراجیکٹ کو 132 ارب روپے سے زائد کی ادائیگیاں ہوئیں، ساہیوال کول پاور کی کیپسٹی پیمنٹس میں 76 ارب 66 کروڑ روپے سے زائد کا اضافہ ہوا، پورٹ قاسم کی کیپسٹی پیمنٹس میں 39 ارب 27 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا، پورٹ قاسم کو 102 ارب روپے سے زائد ادا کئے گئے۔
تھر کول بلاک ون پاور جنریشن کمپنی کو کیپسٹی پیمنٹس میں 93 ارب 58 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا، گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں اس بار 105 ارب دس کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔
پانی سے بجلی پیدا کرنے والے اور سستے سمجھے جانے والے پاور پلانٹس بھی اربوں روپے کی کپیسٹی پیمنٹس لے رہے ہیں۔
نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ نے مالی سال 24-2023 میں 35 15 کروڑ روپے کی کپیسٹی پیمنٹس حاصل کیں، نیلم جہلم گزشتہ کافی عرصے سے بند پڑا ہے اور اس کی بندش سے تقریباً روزانہ 27 کروڑ روپے کا نقصان بھی ہو رہا ہے، اسی طرح 147 میگاواٹ کا سٹار ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بھی 19 ارب سے زائد کے کیپسٹی پیمنٹس لے گیا۔
اس طرح پن بجلی والے کروٹ پاور کمپنی کے کیپسٹی پیمنٹس میں سو فیصد اضافہ ہوا جو 34 ارب سے بڑھ کر 77 ارب 99 کروڑ کا اضافہ ہوا، مجموعی طور پر 36 پاور پلانٹس ہیں اور ان کو یہ ادائیگیاں کی گئیں، ان پاور پلانٹس میں تین ایسے بجلی گھر بھی ہیں جن کے پاس بلیک سٹارٹ فیلسٹی موجود نہیں ہے اور نیپرا نے گزشتہ سال جنوری میں ہونے والے بریک ڈاؤن کے بعد پاور ریسٹور نہ ہونے پر شوکاز بھی جاری کیا ہے۔
سب سے بڑا ساہیوال کوئل پاور پلانٹ ہے جس کے پاس یہ سہولت نہیں اس کے بعد روش پاور اور صبا پاور کے پاس بھی یہ سہولت نہیں ہے، یہ آئی پی پیز معاہدوں کی خلاف ورزی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ آئی پی پیز حکومت پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی بھی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
قانون کے مطابق ہیٹ ریٹ ٹیسٹ سال میں ایک مرتبہ ہونا لازمی ہے لیکن کچھ آئی پی پیز کے 2014 سے یہ ٹیسٹ نہیں ہوئے۔